سینیٹ ہاؤس کمیٹی کا  ٹیلی نارکو پارلیمنٹ لاجز میں ٹاور لگانے  کی اجازت دینے سے گریز

سینیٹ ہاؤس کمیٹی کا  ٹیلی نارکو پارلیمنٹ لاجز میں ٹاور لگانے  کی اجازت دینے سے گریز

اضافی بلاک  کے نئے کام کے حوالے سے بھی متعلقہ کمپنی سے دس سالہ مینٹینس کی  ضمانت لینے کی ہدایت

اسلام آباد (ویب ڈیسک ) سینیٹ ہاؤس کمیٹی نے یکطرفہ طور پر ٹیلی نار کمپنی کو پارلیمنٹ لاجز میں ٹاور لگانے  کی فی الحال  اجازت نہیں دی ۔ اضافی بلاک  کے نئے کام کے حوالے سے بھی متعلقہ کمپنی سے دس سالہ مینٹینس کی ضمانت لینے کی ہدایت کردی گئی ۔ اجلاس چیئرمین کمیٹی و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔چیئرمین سی ڈی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ  پارلیمنٹ لاجز کی میٹینیس  کی زمہ داری سی ڈی اے کے پاس آگئی ہے۔ مگر ابھی تک فنڈز جاری نہیں ہوئے۔ وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ دوسرے اور تیسرے کوارٹر کے فنڈز کے اجراء کے حوالے سے کوئی لیٹر موصول نہیں ہوا۔ کمیٹی  نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سی ڈی اے کو کارکردگی  ناقص قراردیتے بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے ۔ چیئرمین سی ڈی اے نے یقینی دہانی کرائی کہ  ایک روز میں لیٹر جاری کر دیا جائے گا۔ کمیٹی کو اضافی بلاک کی ڈیزائنگ او ر زیر تعمیر بلڈنگ کے حوالے سے بتایا  گیا کہ پی سی ون دسمبر میں  تیار اور فروری میں ٹینڈرنگ  ہوجائے گی۔ لکڑی کی بجائے ایلومیونیم اور یو پی وی سی کا کام کیاجائے گا اور سپلٹ اے سی کی بجائے وی آر ایف سسٹم لگایا جائے گا۔ کمیٹی نے متعلقہ کمپنی  سے سسٹم  کی دس سال تک مینٹینس کی  ضمانت لینے کی ہدایت کردی ہے ۔  اضافی بلاک کے حوالے سے متعلقہ کمپنی کو ہفتہ وار پراگرس رپورٹ دینے کی ہدایت کر دی گئی ہے ۔ مینٹیننس کے کاموں کا آئندہ اجلا س میں تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔ ٹیلی نار کمپنی کو پارلیمنٹ لاجز میں ٹاور لگانے کی اجازت دینے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔کمیٹی نے قراردیا ہے کہ  کسی ایک کمپنی کو قوانین سے ہٹ کر اجازت نہیں دی جا سکتی۔چیف ایم سی آئی کے ساتھ معاملہ اٹھا کر آئندہ اجلاس میں اس معاملے کا جائزہ لیا جائے گااور پیپرا رولز کے مطابق کام کیاجائے گا۔ سینیٹر مولوی فیض محمد نے کہا کہ ان کا گیس کابل میں پرانے بقایا جات بھی شامل کیے گئے ہیں جس پرچیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی نے واضح ہدایت دی تھی کہ جب کوئی سوٹس کسی نئے پارلیمنٹرین کو الاٹ کیا جائے تو اس سے پرانے بقایاجات وصول نہ کیے جائیں بلکہ متعلقہ پارلیمنٹرین سے ہی حاصل کیے جائیں۔