مقبوضہ کشمیر  دنیا میں جمہوری آزادیوں میں 49ویں نمبر پر

مقبوضہ کشمیر  دنیا میں جمہوری آزادیوں میں 49ویں نمبر پر

واشنگٹن  ،11نومبر (ساؤتھ ایشین وائر):
 
دنیا بھر میں جمہوری اور صحافتی آزادیوں پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ فریڈم ان دا ورلڈ 2019 کے نام سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں دنیا کے جن ایک سو ملکوں میں جمہوری حقوق، شہری اور صحافتی آزادیوں کی درجہ بندی کی گئی ہے، ان میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے کشمیر میں موجود جمہوری آزادیوں کی الگ الگ درجہ بندی پیش کی گئی ہے۔
ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق یہ درجہ بندی دو ہزار اٹھارہ کے دوران کی ہے، جب بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹا کر کشمیر کو بھارت میں ضم نہیں کیا گیا تھا۔
فریڈم ہاوس کی رپورٹ میں سال دو ہزار اٹھارہ کے دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر کو جمہوری آزادیوں کی درجہ بندی میں 49 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یعنی وہاں جزوی طور پر آزادیاں حاصل تھیں۔ 
کشمیر کے بارے میں مرتب کی جانے والی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے زیر قبضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت تبدیل کرنے اور وہاں عائد کی گئی حالیہ پابندیوں کا احاطہ نہیں کیا گیا اور اس سلسلے میں تمام جائزے اس سے قبل کی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں اور کشمیر کا کنٹرول 1948 سے بھارت اور پاکستان کے درمیان منقسم ہے اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں بھارتی آئین کی شق 370 کے تحت خاصی حد تک خود مختاری حاصل تھی۔ تاہم، وہاں علیحدگی پسندوں نے بھارتی حکومت کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھیں۔
بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں انتخابات کا انعقاد ہوتا رہا۔ تاہم، یہ انتخابات زیادہ تر پر تشدد رہے۔ وہاں بھارتی مسلح افواج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات متواتر عائد کیے جاتے رہے۔ لیکن ان خلاف ورزیوں پر سزائیں شاذ ہی دی گئیں۔ بدامنی کے دور میں شہری آزادیاں اکثر پابندیوں کا شکار رہیں۔
دوسری جانب، رپورٹ کے مطابق، آزادکشمیر کے دو حصوں یعنی آزاد جموں اور کشمیر، اور گلگت بلتستان میں منتخب اسمبلیاں اور حکومتیں موجود ہیں۔ تاہم، انہیں محدود خود مختاری حاصل ہے۔ انہیں پاکستان کے دیگر صوبوں جیسے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ سیکیورٹی، عدالتوں اور پالیسی سازی کے معاملات میں پاکستان کی وفاقی حکومت کلیدی کردار ادا کرتی ہے 
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سال 2018 کے جون میں ریاست میں منتخب مخلوط حکومت کا خاتمہ ہو گیا، جس کے بعد وہاں 6 ماہ کیلئے گورنر راج نافذ کیا گیا۔ 6 ماہ کی مدت گزرنے کے بعد جموں اور کشمیر میں صدر راج نافذ کر دیا گیا۔
وہاں سیکورٹی کی صورت حال مخدوش رہی اور سال کے دوران تشدد میں کم سے کم 451 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ ایک سال قبل 2017 کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 358 تھی۔ جون 2018 میں معروف کشمیری صحافی شجاعت بخاری کو بھی سرینگر میں قتل کر دیا گیا۔
ریاست میں اکتوبر کے دوران میونسپل انتخابات منعقد ہوئے۔ تاہم، حزب اختلاف کی جماعتوں کے بائیکاٹ کے باعث ووٹنگ کی شرح انتہائی کم رہی۔ بعد میں نومبر اور دسمبر کے دوران ہونے والے پنچائتی انتخابات میں ووٹنگ کی شرح نسبتا زیادہ رہی۔
مئی 2018 میں پاکستانی حکومت نے گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018 جاری کیا جس میں پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے پیش کردہ بیشتر سفارشات کو شامل کیا گیا۔ ان سفارشات میں گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت دیے بغیر صوبے جیسے اختیارات دیے گئے۔ 
اگست دو ہزار انیس میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کی صورتحال میں تبدیلی آئی ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئیندہ سال جمہوری آزادیوں کے عالمی ریکارڈ میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کا رپورٹ کارڈ مختلف تصویر پیش کرے گا۔
فریڈم ہاؤس ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو دنیا بھر میں جمہوریت، سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں تحقیق کر کے ہر سال ایک رپورٹ مرتب کرتا ہے۔