مقبوضہ کشمیرکے مقامی انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان

مقبوضہ کشمیرکے مقامی انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان
کونسل چیئرپرسنز کے انتخاب کے لئے ووٹ کاسٹ کرنے والے پنچوں اور سرپنچوں کو بی جے پی حکومت نے ہوٹلوں میں یرغمال بنا کررکھا
60فیصد بلاکس میں ووٹ کاسٹ کرنے والے پنچوں اور سرپنچوں کی نشستیں خالی ہیں  
 
سرینگر،26اکتوبر (ساؤتھ ایشین وائر):
 بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مقامی پنچایتی انتخابات(بی ڈی سی) کروا کے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی آئین کے اندر انتخابات کو قبول کر چکے ہیں۔ لہذا وہاں کسی رائے شماری کی ضرورت انہیں ہے۔ لیکن حقیقتاً یہ انتخابات وادی کے 1989 کے الیکشن سے بھی بدتر رہے۔
حکومت کے اس وقت انتخابات کے انعقاد کے فیصلے نے، جب کہ وادی میں مرکزی سیاسی جماعتوں کی قیادت سلاخوں کے پیچھے تھی ، نے بھی ان انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بی جے پی علاوہ کر ریاست کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے  انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔اور اس طرح یہ مقابلہ بی جے پی اور آزاد امیدواروں کے درمیان رہا ۔بین الاقوامی نیوز ایجنسی ساؤتھ ایشین وائر نے انتخابات کے متعلق اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شدید عوامی ردعمل کے خوف کے باعث حکومت نے پنچوں اور سرپنچوں ،جنہوں نے بی ڈی سی چیئرپرسن کے لئے ووٹ ڈالنا تھا،کواپنے گاؤں اور علاقوں سے بہت دور سری نگر کے محفوظ ہوٹلوں میں ٹھہرایا، جہاں ان کو یرغمال بنا کررکھا گیا۔ جس کا ایک مقصدان کی حفاظت اور دوسرا  یہ کہ وہ کہیں اپنی جماعتی وفاداریاں تبدیل نہ کر لیں۔  ان میں سے کچھ کشمیری پنڈت ایسے ہیں جو جموں میں ڈھائی سو کلومیٹر دور رہتے ہیں اور کبھی کبھار وادی میں جاتے ہیں۔
اس رپورٹ کو پڑھتے وقت یاد رہے کہ مقامی انتخابات میں اضلاع کے گاؤں کے پنچ اور سرپنچ مقامی بلدیاتی حلقوں یا بلاکس کونسل کے چیئرمین (بی ڈی سی چیئرپرسن)کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالتے ہیں۔ 
مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے سرینگر میں کم از کم سات ہوٹلوں کو منتخب کیا ہوا تھا جہاں انتخابات کے دوران ووٹر سرپنچوں کو ٹھہرایا گیا۔ 
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بی ڈی سی کے ان پہلے انتخابات میں جموں وکشمیر میں  رائے دہندگان کا تناسب98.3 فیصد رہا۔ لیکن اس تناسب کے پیچھے خالی پنچایتوں(بلاکس) کی ایک دلچسپ کہانی بھی ہے ۔
جمعرات کے روز وادی میں 128 کونسلز کے چیئرپرسنز کا انتخاب کیا گیا تھا ، لیکن کثیر تعداد میں امیدوار ایسے ہیں جو چند ووٹوں سے منتخب ہوئے، کیونکہ بیشتر پنچ اور سرپنچ (جنہوں نے ووٹ کاسٹ کرنا تھا)کی نشستیں خالی ہیں۔یعنی آسان الفاظ میں ووٹر موجود ہی نہیں تھے۔ساؤتھ ایشین وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جہاں تک پنچ نشستوں کا تعلق ہے تو 11264نشستیں  جو کل سیٹوں کا 60 فیصد ہیں،خالی ہیں کیونکہ پچھلے سال کے پنچایت انتخابات میں ان وارڈوں میں کوئی امیدوار انتخابات میں حصہ نہیں لے سکا تھا۔
ضلع پلوامہ کے گھیم گاؤں کے ایک پنچ نثار احمد بھٹ بی جے پی کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ وہ بھی سرینگر کے ایک ہوٹل میں مقیم رہے ۔انہوں نے حال ہی میں نئی دہلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی تھی۔ساؤتھ ایشین وائر سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ ، “ان تمام مہینوں میں ، میں نے اپنے گاؤں میں ایک رات بھی نہیں گزاری۔ “میں صرف دن کے وقت صرف چند دفعہ اپنے گاؤں گیا ہوں اور چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں رہا ۔”
کئی بلاکس میں امیدوار اپنے آپ کو خود ووٹ ڈالنے بھی نہیں آئے،ایک امیدوار تین ووٹ حاصل کر کے جیتا، بارہ مولا میں ایک امیدوار صرف ایک ووٹ حاصل کر کے جیتا، سری نگر کے ایک وارڈ میں کوئی امیدوار اپنے آپ کو بھی ووٹ ڈالنے نہ آیا ۔
ضلع بارہ مولا میں ایک امیدوار صرف ایک ووٹ لے کر کامیاب ہوا، ایک وارڈ میں صرف تین ووٹ پڑے، سری نگر کے ایک وارڈ میں کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا حتی کہ کسی امیدوار نے بھی ووٹ نہیں ڈالا۔
 جموں میں مقیم ایک کشمیری پنڈت ، جنوی نے اپنے حریف منوج پنڈیتا سے  چار کے مقابلے میں پانچ ووٹ حاصل کیے۔
کاکاپورہ کا20 پنچایت کے حلقہ پر مشتمل ایک بلاک جس میں 158 پنچ وارڈز اور 20 سرپنچ سیٹیں ہیں ۔ وہاں صرف 9 منتخب پنچ اور سرپنچ ووٹرہیں ، اور ان میں سے آٹھ کا تعلق جموں میں رہنے والے دو پنڈت خاندانوں سے ہے۔
شمالی کشمیر کے حاجن بلاک میں 196 پنچ وارڈز اور 22 سرپنچ سیٹیں ہیں، جنہوںنے ووٹ کاسٹ کرنا تھا، لیکن وہاں 171 پنچ اور 14 سرپنچ نشستیں خالی ہیں ، یعنی 196کی بجائے صرف 33 پنچوں اور سرپنچوں نے تین امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کیا ، جو بی ڈی سی چیئرپرسن کے عہدے کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ ساؤتھ ایشین وائر نے دستیاب اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان میں دو امیدواروں ایسے تھے ،جن میں سے ہر ایک کو 16 ووٹ ملے جس کے بعد فاتح کا فیصلہ ٹاس کے ذریعے کیا گیا۔
سرپنچوں کی نشستوں کے اعدادوشمار بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں ۔ وادی میں ،2375 سرپنچ وارڈوں میں سے 817 یا 34 فیصد خالی ہیں۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت نے ان خالی وارڈوں کے لئے لازمی طور پر دوبارہ انتخابات کا انعقاد بھی نہیں کیا۔
بی ڈی سی انتخابات میں ، وادی میں 137 بلاکس میں سے ، 9بلاکس میں کوئی امیدوار نہیں تھا ، جبکہ 24 بلاکس میں امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔
سرینگر کے نواح میں واقع بلاک کاہی پورہ میں ، روحینہ جان صرف 11 ووٹ حاصل کرنے کے بعد چیئرپرسن منتخب ہوئیں۔ ان میں سے 6 ووٹ انکے اپنے خاندان سے ہیں۔ساؤتھ ایشین وائر کو معلوم ہوا ہے کہ کلتریہ پنچایت حلقہ سے تعلق رکھنے والے روحینہ جان کے شوہر ، ساس ، ساس ، بہنوئی اور بہنوئی ہیں۔ یہ سب گذشتہ سال بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ اس بلاک میں 170 سے زیادہ پنچ اور سرپنچ وارڈز موجود ہیں ، ان میں سے بیشتر خالی ہیں۔ صرف 33 حلقوں کی نمائندگی پنچوں اور سرپنچوں نے کی ہے۔