وادی کشمیرمیں کرفیو اور پابندیاں 33ویں دن بھی جاری امریکہ کا عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ

امریکہ کا مقبوضہ کشمیرمیں عائدپابندیاں ہٹانے کا مطالبہ

وادی کشمیرمیں کرفیو اور پابندیاں 33ویں دن بھی جاری

واشنگٹن ( کے ایم ایس)امریکہ 5اگست کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کئے جانے کے بعد سے مقبوضہ علاقے کی صورتحال پر مسلسل تشویش ظاہر کرر ہا ہے اورعلاقے میں بھارتی قابض انتظامیہ کی طر ف سے عائد پابندیاں ہٹانے پرزوردے رہا ہے ۔

کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن اوٹا گس نے واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی سیاست دانوں اور تاجر وںسمیت بڑے پیمانے پر گرفتاریوںاور مقبوضہ علاقے میں عائد سخت پابندیوں پر تشویش ظاہر کی ۔ انہوںنے مقبوضہ علاقے میں موبائیل فون اور انٹرنیٹ سمیت مواصلاتی بلیک آﺅٹ پر بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے بھارت پر زوردیا کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے اور لوگوں کی موبائیل فون اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سروسز تک رسائی یقینی بنائے ۔

ادھر قابض انتظامیہ نے لوگوںکو جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور محرم الحرام کے جلوس نکالنے سے روکنے کیلئے کرفیو اور دیگر پابندیوںکو مزید سخت کردیا ۔5 اگست کو بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی معطلی کے اعلان کے بعدسے کشمیریوں کو گھروں میں محصور رکھنے کیلئے مقبوضہ علاقے کے اطراف و اکناف میں لاکھوں بھارتی فوجیوں کو تعینات کیاگیا ہے ۔ مسلسل کرفیو ، انٹرنیٹ، موبائل فون اور لینڈ لائن سروسزسمیت تمام مواصلاتی ذرائع معطل ہونے کے باعث وادی کشمیرکا گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے اور لوگوں کو نمازوں کی ادائیگی سمیت اپنے مذہبی فرائض اداکرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ انہیں وفات پاجانے والے اپنے پیاروںکی نماز جنازہ میں شرکت کی بھی اجازت نہیں ہے ۔سخت پابندیوںکے باعث مریضوںکی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں تک رسائی ناممکن بنادی گئی ہے جبکہ ڈاکٹر وںاور طبی عملے کو بھی شدید مشکلات کاسامنا ہے۔ سخت پابندیوں کے باعث وادی کشمیرمیں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے کیونکہ لوگوں کودودھ، بچوںکی خوراک اور زندگی بچانے والی ادویات سمیت روزمرہ استعمال کی اشیاءکی شدید قلت کا سامنا ہے جبکہ ہسپتالوں اور میڈیکل سٹوروں پر ادویات دستیاب نہیں ہے ۔ 5اگست سے بازار، پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرین سروس بھی معطل ہے ۔

دریں اثناءبھارتی ریاست راجستھان کے ضلع کے قصبے نیم رانا میں ہندو انتہا پسندوں نے کشمیری طالب علم میر فیض کو خواتین کا لباس پہنچا کر گھمبے سے باندھنے کے بعد بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ہے ۔بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے ایروناٹیکل انجینئرنگ کے ساتویں سمسٹر کا طالب علم میر فیض پر بدھ کی شب حملہ کیاگیا۔

مقبوضہ کشمیر میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری محاصرے ، کرفیو، پابندیوں اور مواصلاتی بندش کے باعث پرائیویٹ سیکٹر میںکام کرنے والے ہزاروں افراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے بے روز گار ہو چکے ہیں ۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق مواصلاتی کمپنیوں ، فیکٹریوں ، کارخانوں ، بنکوں وغیرہ میں کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین جن میں بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے ، اپنے معمول کے کام سے محروم ہو گئے ہیں اور گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ ضلع بڈگام کے رہائشی ایک نوجوان نے جو ایک مواصلاتی کمینی میں کام کرتا تھا ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ سے جاری محاصرے اور پابندیوں کی وجہ سے وہ نہ صرف بے روزگار ہو چکا ہے بلکہ ذہنی تناﺅ کا بھی شکار ہے۔ ایک موبائل کمپنی میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے کہا کہ نوکری سے محروم ہونے کے باعث اسکی مالی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ پانچ اگست سے گھر پر ہے ، کمپنی والوں نے اسکی چھٹی کی ہے ، آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور حالات ایسے ہیں کہ فاقوں تک نوبت پہنچ چکی ہے۔