پاکستان میں سائبر سیکورٹی کے لئے کوئی قانون نہیں ہے ۔ عمار جعفری کا انکشاف

سی پی این ای میڈیا اکیڈمی کے زیر اہتمام “سائبر سیکیورٹی  اور جعلی خبریں” کے موضوع پر مذاکرہ
پاکستان میں سائبر سیکورٹی کے لئے کوئی قانون نہیں ہے ۔ سائبر سیکیورٹی کے ماہر عمار جعفری کا انکشاف
آج ہی سے مستقبل کے میڈیا کے لئے تیاری کی جائے۔ ڈاکٹر جبار خٹک

…کراچی(صباح نیوز) پاکستان میں سائبر سیکورٹی کے لئے کوئی بھی قانون موجود نہیں ہے۔ انسانی زندگی اور انفرادی حقوق کی سلامتی کے لئے سائبر سیکیورٹی انتہائی ضروری ہے۔ان خیالات کا اظہار ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ، سائبر سیکورٹی کے ماہر اور پاکستان انفارمیشن سیکورٹی ایسوسی ایشن (PISA) کے چیئرمین عمار جعفری  نے  سی پی این ای میڈیا اکیڈمی اور سی پی این ای ایڈیٹرز کلب کے زیر اہتمام ”سائبر سیکیورٹی اور جعلی خبریں” کے موضوع پر معلوماتی مذاکرہ کے موقع پر کیا۔ پروگرام میں سی پی این ای کے رکن ایڈیٹر، عامل صحافیوں، سائبر سیکیورٹی کے طالب علموں اور دیگر میڈیا کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ عمار جعفری نے مزید کہا کہ انسانی زندگی اور انفرادی حقوق کی سلامتی کے لئے سائبر سیکورٹی انتہائی ضروری ہے، اس کی قانون سازی پر ہمیں توجہ دینی ہوگی اور اس کے رموز اور ہنر سے آراستہ بھی ہونا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لئے سابئر سیکیورٹی میں مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ جدید ٹیکنالوجی نے جعلی خبروں کی نشاندہی کو اب ممکن بنادیا ہے۔سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا ہے کہ آج کے میڈیا کے لئے اصلی اور جعلی خبروں کے مابین امتیاز کرنا ایک کٹھن کام ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے خبروں کی ترسیل کا منبع اور ذرائع میڈیا پروفیشنلز کے ساتھ ساتھ اب عام لوگوں کی دسترس میں بھی ہے جس کی وجہ سے جعلی خبروں کی بہتات ہے لیکن جعلی خبروں کا تعین اگرچہ دشوار لیکن ناممکن نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جعلی خبروں کی وجہ سے میڈیا کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، معلومات تک رسائی اور باخبر رہنے کے حقوق بھی صحت، خوراک اور تعلیم جیسے حقوق کی طرح بنیادی انسانی حقوق کا درجہ رکھتے ہیں جس طرح غیر معیاری تعلیم، اشیا میں ملاوٹ اور نقلی دواں کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اسی طرح جعلی خبروں کی اشاعت بھی بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔ اگر جعلی خبروں کی اشاعت ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بدستور جاری رہی  تو میڈیا مصدقہ خبروں کے لئے ایک مستند ذریعہ نہیں رہے گا ۔ ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا کہ میڈیا کے اسٹیک ہولڈرز اور پروفیشنلز کو ”آج کے میڈیا کے مستقبل” کے بارے میں فکرمند ہونے کی بجائے ہمیں ”آج ہی مستقبل کا میڈیا ” بننے کی تیاری کرنی چاہئے۔ براڈ کاسٹ جرنلسٹ سندس رشید نے کہا کہ ہمارے میڈیا اداروں کی ساکھ کو مستند بنانے کے لئے نیوز ڈیسک پر جعلی خبروں کی نشاندہی کا شعبہ بھی ضروری ہے۔ڈیٹا جرنلسٹ رمشا جہانگیرنے کہا کہ مستقبل کی صحافت کا دارومدار حقائق، اعداد و شمار و دیگر ڈیٹا پر مبنی ہوگا جس کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا انتہائی لازمی ہے جبکہ حقائق، اعداد و شمار و دیگر ڈیٹا کو مسخ کرنے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاتا ہے جس کا تدارک بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔اس موقع پر سی پی این ای ایڈیٹرز کلب کے چیئرمین حامد حسین عابدی نے سی پی این ای میڈیا اکیڈمی کے زیر اہتمام سی پی این ای کے سائبر سیکیورٹی ڈیسک کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ اس سے قبل سی پی این ای کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عامر محمود نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ مختلف ویب پورٹلز کے ذریعے مواد کی جعلی اشاعت کاتدارک کرنا ہوگا۔
#/S