سخت ترین کرفیو کے باوجود ہزاروں افراد کا صورہ میں احتجاجی مارچ

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجودسرینگر میں ہزاروں کشمیریوںکے بھارت کے خلاف مظاہرے
سخت ترین کرفیو کے باوجود ہزاروں افراد کا صورہ کے علاقے میں احتجاجی مارچ ،نڈیا مخالف نعرے بازی کی
بھارتی فورسز کا مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال، متعدد زخمی
جمعے کو شہریوں کو اپنی مقامی مساجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت تو دی ، سری نگر کی جامع مسجد کو بند رکھا گیا
مقبوضہ کشمیر : ذرائع ابلاغ کی معطلی اور کرفیو چھٹے روز بھی جاری
کشمیری گھروں میں محصور ، بیرونی دنیا سے رابطہ مسلسل منقطع

سرینگر (صباح نیوز)مقبوضہ کشمیر میں جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے مذموم بھارتی اقدام کے خلاف کرفیو کے باوجود ہزاروں کشمیریوں نے سرینگر میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ سری نگر سے  برطانوی نشریاتی ادارے کے  مطابق مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ جمعے کو بڑے پیمانے پر انڈیا مخالف مظاہرے ہوئے۔ جمعے کی نماز کے بعد سخت ترین کرفیو کے باوجود

ہزاروں افراد نے صورہ کے علاقے میں احتجاجی مارچ کیا اور انڈیا مخالف نعرے بازی کی۔ جلوس کے شرکا ہم کیا چاہتے آزادی، انڈیا واپس جا اور انڈیا کا آئین نامنظور کے نعرے لگاتے رہے۔اس جلوس میں بچے، جوان اور بوڑھے کشمیریوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اور جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ذرائع ابلاغ نے ایک بھارتی پولیس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صورہ میں ہونے والے مظاہرے میں دس ہزار کے لگ بھگ لوگ موجود تھے اور یہ اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔بھارت کی طرف سے چار اگست کی رات کو مقبوضہ علاقے کو محاصرے میں لینے کے بعد سے یہ اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ بھارت نے دفعہ 370کی منسوخی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں سخت پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں ، ٹیلیفو ن ، انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ کے دیگر تمام ذرائع بند ہیں جبکہ چھ سو کے قریب حریت رہنمائوں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔  سرینگر کے قمرواری علاقے میں پولیس نے مشتعل ہجوم کا تعاقب کیا تو کچھ نوجوان دریا میں کود پڑے جس کے باعث ایک نوجوان غرقاب ہوگیا۔پولیس حکام نے بتایا ہے کہ گذشتہ پانچ روز کے دوران پرتشدد مظاہروں کے تقریبا 100 واقعات پیش آئے ہیں جن میں بیس سے زیادہ افراد چھرے اور اشک آور گیس کے گولے لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔اس سے قبل سری نگر میں ہی موجود  برطانوی نشریاتی  ادارکے کے نمائندے عامر پیرزادہ نے بتایا تھا کہ سری نگر کے مختلف ہسپتالوں سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر کم از کم 52 افراد کو چھروں سے زخمی ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں میں لایا گیا ہے جن میں سے کم از کم تین افراد کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔کشمیر میں نیم فوجی اہلکاروں کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ماضی میں بھی چھروں والے کارتوسوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے جس پر عالمی سطح پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔نامہ نگار کا کہنا ہے کہ گذشتہ 30 برس میں سخت ترین کرفیو اور مواصلاتی مقاطعے کی وجہ سے افواہوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم گورنر ایس پی ملک نے اعلان کیا ہے کہ لوگوں کو عید منانے میں تکلیف نہیں ہو گی، کیونکہ ‘مختلف علاقوں میں غذائی اجناس کی موبائل گاڑیاں بھیجی جائے گی، سبزیوں اور گوشت کے لیے منڈیاں قائم ہوں گی جن تک لوگوں کی رسائی ممکن ہوگی۔’جمعے کو شہریوں کو اپنی مقامی مساجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت تو دی گئی تاہم سری نگر کی جامع مسجد کو بند رکھا گیا۔ادھر کارگل میں عوام نے لداخ کو مرکز کے زیرِانتظام علاقہ بنانے اور وہاں اسمبلی قائم نہ کرنے کے خلاف مظاہرے کیے ہیں جن کے بعد پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔  انڈین حکومت کے فیصلے کے بعد سے علاقے میں ماحول شدید تنا وکا شکار ہے اور کارگل کے لوگ مرکزی حکومت سے کافی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔  عوام اس بات پر برہم ہیں کہ کارگل کو لداخ میں شامل کیا گیا ہے اور انھیں ایک قانون ساز اسمبلی بھی نہیں دی گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل بھی نہیں ہیں۔  چار دن سے کارگل مکمل طور بند ہے اور لوگوں نے جمعے کو بھی احتجاجا دکانیں بند کر رکھیں۔ کارگل میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری تعینات ہے اور نوجوانوں کی جانب سے پولیس پر پتھرا وکے واقعات کے بعد چند نوجوانوں کو پولیس نے حراست میں بھی لیا ہے۔،علاوہ ازیںمقبوضہ کشمیر میں مواصلات کے تمام ذرائع  ( ہفتہ) چھٹے روز بھی معطل  رہے۔ قابض انتظامیہ نے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کے رابطے منقطع اور ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔  بھارتی حکومت نے ملکی آئین کی دفعہ 370کی منسوخی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کوروکنے کے لیے مقبوضہ علاقے میں ٹیلیویژن ، ٹیلیفون اور انٹرنیٹ کی سہولیات ختم کر دی ہیں۔ بھارت نے دفعہ 370پانچ اگست بروز پیر منسوخ کردی تھی۔ اس اقدام سے پہلے قابض انتظامیہ نے علاقے میں مواصلات کا نظام منقطع اور کئی سیاسی رہنمائوں کو گرفتارکرلیا تھا۔ دریں اثناء قابض انتظامیہ نے مقبوضہ علاقے کے اطراف و اکناف میں بڑی تعداد میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کر کے اسے مکمل طور پر ایک فوجی چھائونی میں تبدیل کر رکھا ہے۔ مقبوضہ علاقے میں کرفیو او ر دیگر پابندیاں بدستور نافذ ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی عدم دستیابی کے باعث مقبوضہ علاقے کا اس وقت وقت بیرونی دنیا سے رابطہ بالکل معطل ہے ۔ مقامی اخبارات پیر کے روز سے شائع نہیں ہو رہے اور نہ ہی اخبارت اپنے آن لائن ایڈیشن اپ ڈیٹ کر پا رہے ہیں۔سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت تقریباً تمام حریت رہنما گھروں اور تھانوں میں نظر بند ہیں۔ ستر گرفتار حریت رہنمائوں اور کارکنوں کو سرینگر سے بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر آگرہ کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم اور کشمیرچیمبر آف کامرس کے عہدیدار مبین شاہ بھی بھارتی جیل میں منتقل کیے جانے والوں میں شامل ہیں۔ بھارت نواز سیاست دانوں فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور سجاد لوں سمیت 560سے زائد سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو بچوں کی غذا اور زندگی بچانے والی ادویات اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کی وجہ سے اس وقت سخت تکلیف کا سامنا ہے