FIR against the owners of Facebook pages that posted blasphemous content.

ISLAMABAD ( MEDIA REPORT )

In response to hearing of case in Islamabad High Court, Islamabad Police today registered an FIR against the

owners of Facebook pages that posted blasphemous content.

FIR, a copy of which is pasted below, reads that some unidentified individuals were operating Facebook pages namely, “Bhainsa, Moochi, and Roshni” that were not only posting content against state institutions but were also spreading blasphemous content.

FIR read that such blasphemous content hurt the feelings of 200 million Pakistani Muslims.


Pakistan Telecommunication Authority, on orders of IHC, has already blocked these pages for users in Pakistan.

Islamabad High Court, just in case if you aren’t following, has been hearing a case about posting blasphemous content on Facebook.

Petitioner alleged that Salman Haider, Ahmed Waqas Goraya, Asim Saeed, Ahmed Raza Naseer and Samar Abbas created and operated the pages in questions.

IHC has asked to put the names of alleged Facebook page owners in ECL (Exit Control List).

It won’t be out of place to mention that Facebook usually doesn’t reveal the identity of the users or the page owners. Just recently it turned down a request from Pakistan’s government for revealing the information of users who had posted fake images of Chief Justice of Pakistan.

کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی کا معاملہ۔اعلیٰ سطح پر کاروائی نہ کی گئی تو وزیراعظم کو بھی طلب کریں گے۔اسلام آباد ہائیکورٹ

وزیراعظم اور پارلیمان کی خاموشی افسوسناک قرار، گستاخانہ مواد آج ہی وزیراعظم کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ انہیں معاملے کی حساسیت کا ادراک ہو۔سیکریٹری داخلہ کو حکم

جسٹس شوکت عزیز صدیقی سیکریٹری داخلہ کو گستاخانہ مواد دیکھاتے ہوئے زور و قطار رو پڑے،آقا ﷺ کی ناموس کے تحفظ کے لئے وفاقی سیکریٹریز کو اللہ کا واسطہ دے دیا

یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ یہ مسئلہ صرف شوکت عزیز صدیقی کا ہے،پوری عدلیہ ناموس رسالتﷺ کی محافظ اور اس پر پہرا دے گی۔۔۔۔۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(اسلام آباد)اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی بدترین گستاخی کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی کے متعلق تمام مواد آج ہی وزیراعظم کو پیش کیا جائے تاکہ انہیں معاملے کی حساسیت کا ادراک ہو۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے قرار دیا ہے کہ یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ یہ مسئلہ صرف شوکت عزیز صدیقی کا ہے،پاکستان کی پوری عدلیہ ناموس رسالتﷺ کی محافظ ہے اور انشاء اللہ پاکستان کی پوری عدلیہ ناموس رسالتﷺ پر پہرا دے گی، اگر اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر کاروائی نہ کی گئی تو وزیراعظم کو بھی عدالت میں طلب کیا جائے گا،ہم غیرسنجیدہ معاملات میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ میرے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے مگر اس پر بدقسمتی سے ایگزیکٹو کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا،پارلیمان بھی اس پر خاموش ہے،یہ بہت افسوسناک بات ہے،پتا نہیں انہیں نیند کیسے آجاتی ہے یہ سب دیکھ کر اور اسے سن کر،وفاقی سیکریٹیز صاحبان!میں آپ کو حکم نہیں دے رہا،آپ کی منت کر رہا ہوں کہ خدا کے لئے اللہ کے رسول ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے کچھ کرلیجئے ،آپ لوگوں نے نوکری بہت کرلی،اب اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی کرنے کے لئے بھی کچھ کرلیں،یہی سب کچھ ہے،اس کے علاوہ اور کچھ نہیں بچے گا،اس وقت صرف رد شاتم اور رد ملعون مہم چلنی چاہیئے،۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی بدترین گستاخی کے خلاف سلمان شاہد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت آج(جمعرات کو)ہوئی،جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مقدمے کی سماعت کی،درخواست گزار کی جانب سے طارق اسد ایڈووکیٹ،وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان،چیئرمین پی ٹی اے ڈاکٹر سید اسماعیل شاہ،آئی جی پولیس اسلام آباد اور ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے،سماعت کا آغاز ہوا تو وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف خان نے عدالت کو بتایا کہ ’’عدالت عالیہ کے حکم کی روشنی میں گزشتہ روز میں نے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا اور اس کے بعد تمام صورتحال سے وفاقی وزیرداخلہ کو آگاہ کیا گیا،جس کے بعد ہم نے تین اقدامات کئے ہیں،سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی میں ملوث افراد کے خلاف دفعہ 295-Cاور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے،ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے اور سوشل میڈیا میں گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لئے امریکہ میں فیس بک کے حکام سے فوری طور پر رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ ایف آئی اے تحقیقات کتنے وقت میں مکمل کرے گی،اس پر وفاقی سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کو تحقیقات مکمل کرنے کے لئے دو سے تین ہفتے درکار ہیں،اس لئے کہ اس حوالے سے فیس بک انتظامیہ سے تمام ریکارڈ حاصل کرنا ہے۔چیئرمین پی ٹی اے ڈاکٹر اسماعیل شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ’’عدالت عالیہ کے احکامات کی روشنی میں گستاخان پیجز کو بلاک کردیا ہے،گزشتہ روز چار گستاخانہ پیجز بلاک کئے گئے بعدازاں اسی نام سے دو مزید پیجز بنے جنہیں ریکارڈ میں آتے ہی بلاک کردیا گیافیس بک میں ڈیڑھ ارب سے زائد پیجز ہیں،کوئی ایسا طریقہ کار فی الحال موجود نہیں کہ گستاخانہ پیجز کی فوری طور پر نشان دہی ہوسکے،اس حوالے سے عوام ہمارے ساتھ تعاون کرے،جو بھی گستاخانہ پیج کسی کے نوٹس میں آئے وہ ہمیں آگاہ کرے‘‘۔اس موقع پر طارق اسد ایڈووکیٹ نے اعتراض کیا کہ چیئرمین پی ٹی اے درست نہیں فرما رہے کہ انہوں نے گستاخانہ پیجز کو بلاک کردیا،بھینسا نامی پیج اب بھی چل رہا ہے،عدالت میں غلط بیانی کی جائے تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے گستاخانہ پیجز کو بلاک کیا تھا،ممکن ہے کہ رات گئے نئے پیجز بنا لیئے گئے ہوں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریارکس دیئے کہ’’ تمام گستاخانہ پیجز بلاک ہونے چاہیئے،دو باتیں سامنے رکھی جائیں ،ایک تو تمام گستاخانہ پیجز بلاک ہوں اور دوسرا یہ کہ اس میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہو،پہلے بھی کہا اور آج بھی کہتا ہوں کہ ایسا نہ کیا گیا تو پورے سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کا حکم جاری کردیں گے،دنیا کے کئی ممالک میں سوشل میڈیا پر پابندی ہے،یہاں بھی پابندی لگ گئی تو ہم زندہ رہ لیں گئے،اگر یہ عدالت اس حوالے سے قدم نہ اٹھاتی تو یہ سلسلہ جاری رہتا،لوگ یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ یہ مسئلہ صرف شوکت عزیز صدیقی کا ہے،پاکستان کی پوری عدلیہ ناموس رسالتﷺ کی محافظ ہے اور انشاء اللہ پاکستان کی پوری عدلیہ ناموس رسالتﷺ پر پہرا دے گی، وزیر اعظم نے حلف اٹھایا ہے کہ میں اس بات کا پابند ہوں کے اسلامی نظریہ کا تحفظ کروں جو کہ قیام پاکستان کی بنیاد ہے،ایگزیکٹو کے تمام لوگ یہی حلف اٹھاتے ہیں،عدلیہ کا حلف یہ نہیں ہے ،کیونکہ عدالت میں دوسرے معاملات بھی آسکتے ہیں،مگر بحیثیت مسلمان اس طرح کی گستاخی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا‘‘۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’عارف صاحب!یہ سارا گستاخانہ مواد آج ہی وزیراعظم کو دیں تاکہ انہیں اس معاملے کی حساسیت اور اس کے نتائج کا اندازہ ہو،ہم غیرسنجیدہ معاملات میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ میرے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے مگر اس پر بدقسمتی سے ایگزیکٹو کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا،پارلیمان بھی اس پر خاموش ہے،یہ بہت افسوسناک بات ہے،پتا نہیں انہیں نیند کیسے آجاتی ہے یہ سب دیکھ کر اور اسے سن کر‘‘۔اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ وفاقی سیکریٹری آئی ٹی اور وفاقی سیکریٹری اطلاعات کہاں ہیں،دونوں وفاقی سیکریٹریز کی عدالت میں عدم موجودگی پر جسٹس شوکت عزیز صدیق برہم ہو گئے اوروفاقی سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرکے ریمارکس دیئے کہ’’دیکھ لیں معاملہ کس قدر سنگین ہے اور دو وفاقی سیکریٹریز عدالتی احکامات کے باوجود عدالت میں موجود نہیں،پھر مجبوراََ میں کوئی سخت حکم جاری کردوں گا تو باتیں شروع کر دی جائیں گی‘‘۔جسٹس شوکت صدیقی نے رجسٹرار کو حکم دیا کہ مذکورہ دونوں وفاقی سیکریٹریز کو فون کرکے کہیں کہ آدھے گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش ہو جائیں،ورنہ ورنٹ گرفتاری جاری کردوں گا۔جس کے بعد سماعت آدھے گھنٹے کے لئے ملتوی کردی گئی۔دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو وفاقی سیکریٹری آئی ٹی اور وفاقی سیکریٹری اطلاعات عدالت میں موجود تھے،اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کچھ گستاخانہ مواد ریڈر کے ذریعے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو دیتے ہوئے کہا کہ’’اسے صرف وفاقی سیکریٹری داخلہ دیکھیں گے‘‘،جس کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی زور و قطار رونے لگے،جس پر عدالت میں موجود دیگر افراد بھی رو دیئے،جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے روتے ہوئے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ’’عارف صاحب!اس کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے‘‘،اس پر وفاقی سیکریٹری داخلہ بھی رو دیئے اور جواب دیا کہ’’اگر عدالت کا حکم نہ ہوتا کہ میں یہ دیکھوں تو میں اس مواد پر ایک نظر بھی نہیں ڈال سکتا تھا‘‘،جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک دفعہ پھر کہا کہ’’یہ سارا مواد وزیراعظم کو دیں،اگر اس معاملے پر اعلیٰ سطح پر کاروائی نہ ہوئی تو میں وزیراعظم کو عدالت میں طلب کرلوں گا،اس وقت اس سے بڑا مسئلہ کوئی نہیں،اس وقت صرف رد شاتم اور رد ملعون مہم چلنی چاہیئے،حیرت ہے کہ اس قدر گستاخی پر بھی ایگزیکٹو کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی،سارے معاملے کی آپ خود نگرانی کریں گے‘‘۔اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایک دفعہ پھر آبدیدہ ہوگئے اور تینوں وفاقی سیکریٹریز کو مخاطب کرکے کہا کہ’’میں آپ کو حکم نہیں دے رہا،آپ کی منت کر رہا ہوں کہ خدا کے لئے اللہ کے رسول ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے کچھ کرلیجئے‘‘،وفاقی سیکریٹری آئی ٹی اور وفاقی سیکریٹری اطلاعات کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ’’الیکٹرونک میڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں؟بے حیائی اور فحاشی کا طوفان آیا ہوا ہے،ایک وقت تھا کہ ہم پوری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر فیملی چینلز دیکھتے تھے،اب تو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر اشتہار بھی نہیں دیکھا جاسکتا،اپنی مصنوعابیچنے کے لئے پوری قوم کی عزت،غیرت اور ناموس کو داؤ پر لگا دیا گیا،سیکریٹری اطلاعات صاحب!آپ اس کو کنٹرول کریں،آپ لوگوں نے نوکری بہت کرلی،اب اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی کرنے کے لئے بھی کچھ کرلیں،یہی سب کچھ ہے،اس کے علاوہ اور کچھ نہیں بچے گا‘‘۔بعدازاں عدالت نے اپنے حکم میں وفاقی سیکریٹری داخلہ کو تمام متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا میں گستاخانہ مواد کے روک تھام اور گستاخی میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ’’اس وقت پاکستان کے لئے سب سے حساس مسئلہ یہ ہے،پوری پاکستانی قوم شدید تکلیف میں مبتلاء ہے، اگزیکٹو کی جانب سے کوئی کاروائی نہ ہونے پرپوری قوم بے یار و مددگار ہے،وفاقی سیکریٹری داخلہ تمام گستاخانہ مواد وزیر اعظم کو پیش کریں تاکہ انہیں معاملے کی نزاکت کا احساس ہو،اگر فوری طور پر اعلیٰ سطح پر ایکشن نہ ہوا تو ملک میں شدید امن و امان کا مسئلہ پیداء ہو جائے گا،وفاقی سیکریٹری داخلہ تمام تحقیقاتی اور انٹیلی جنس ایجنسیز کو بھی تحقیقاتی عمل میں شامل کریں،وفاقی سیکریٹری آئی ٹی متعلقہ حکام کا اجلاس بلاکر سوشل میڈیا میں گستاخانہ مواد کو آنے سے روکنے کے لئے فوری طور پر حکمت عملی وضع کریں‘‘۔اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرکے کہا کہ’’میں ایک دفعہ پھر کل والی بات دوہرا رہا ہوں کہ اس معاملے کی تحقیقات میں وہ لوگ بالکل بھی شامل نہ ہوں جنہیں آئین پاکستان نے غیرمسلم قرار دیا ہے کیونکہ وہ لوگ خود اس گھناؤنے عمل میں شریک ہیں‘‘۔بعدازاں سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔