پیمرا ہندی پروگرام ،انڈین گانوں پر ازخود نوٹس نہیں لیتا اور شاہد مسعود کے پروگرام پر نوٹس لے لیا گیا۔

اسلام آباد(خصوصی رپورٹ) سینیٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کے چیئرمین سینیٹر کامل علی آغا کی صدارت میں منعقد ہونے والےاجلاس میں پیمرا کی طرف سے اے آر وائی نیوز چینل کے اینکر پرسن شاہد مسعود کے خلا ف بغیر سنے کاروائی اور پیمرا کے کن قوانین کے تحت اور کیا الزامات تھے۔ بغیر وضاحت مانگے کاروائی اور کیا یہ اقدامات جرنلزم کی آذادی کو روکنے اور ہر شہری کو آئین میں دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ۔سوالات پر بھی تفصیلی بحث ہوئی ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پہلی دفعہ قائمہ کمیٹی نے کسی ٹی وی پروگرام پر ازخود نوٹ س لے کر اجلاس بلایا ہے۔پیمرا کو غیر سیاسی ادارہ ریکھنا چاہتے ہیں،پیمرا ہندی پروگرام ،انڈین گانوں پر ازخود نوٹس نہیں لیتا اور شاہد مسعود کے پروگرام پر نوٹس لے لیا گیا۔ پیمرا نے شوکاز نوٹس ٹی وی چینل کو جاری کیا اور سماعت کو موقع بھی نہیں دیا گیا اور سزا اینکر پرسن کو دے دی گئی اور کہا کہ سزا ضرور دیں لیکن سماعت کا موقع بھی ملنا چاہیے۔چیئرمین کامل علی آغا نے تمام اقدامات کو آئین ،قانون اور کنڈیکٹ آف کوڈ کی خلاف ورزی قرار دیا او رکہا کہ کسی کو بغیر سنے سزا دینے کا کوئی قانون نہیں۔آئین پاکستان کی پابندی بھی نہیں کی گئی۔پیمرا کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں اینکر پرسن کے خلاف کہیں جرم ثابت نہیں ہوتا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اخباری تراشوں کو دکھا کر کمیٹی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا ۔وزارت اطلاعات نے سپریم کورٹ میں کمیٹی کا بنایا گیا ضابطہ اخلاق پیش نہیں کیا۔قائمہ کمیٹی نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے میڈیا کا ضابطہ اخلاق بنایا تھا۔ چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے آگاہ کیا کہ رمضان المبارک میں جیو اور آج ٹی وی کے پروگرام بند کئے گئے جہاں بھی ضرورت پڑے پیمرا کاروائی کرتی ہے۔شاہد مسعود کے پروگرام پر سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد کاروائی کی گئی اور کہا کہ پروگرام کے بعد شوکاز نوٹس جاری کیا گیا معاملہ سی او ایس سندھ کو بھجوایا ۔عدالت کے خلاف توہین کی وجہ سے کاروائی کی گئی ۔چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کے اغواء کے بعد شاہد مسعود نے پروگرام میں کچھ ایسی باتیں کیں جو بادی النظر میں کوڈ آف کنڈیکٹ کے خلاف تھیں۔اویس علی شاہ کے اغواء پر پروگرام کے حوالے سے سپریم کورٹ نے سمن کیا ۔چینل کو مکمل بند نہیں کیا جا سکتا سینکڑوں لوگوں کی نوکریوں کا مسئلہ ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ چینل کی بجائے ایک شخص کو سزا غلط ہے چینل بند ہونا چاہئے تھابنایاگیا کوڈ آف کنڈیکٹ نوٹیفائی بھی نہیں کیا گیا۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ کمیٹی کو دیکھنا ہوگا کہ کوڈ آف کنڈیکٹ بنانے کا اختیار وزارت کو یا قانون و انصاف کا ہے۔قانون کی بالادستی ہونی چاہیے حکومت کسی بھی چینل پر پابندی یا کسی اینکر پرسن کے حق میں نہیں ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے ریگولیٹریز باڈیز کا کردار بہتر ہونا چاہیے پاگل پن کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ پروگرام ابھی تک چل رہا ہے بند نہیں ہوا روزانہ پاکستان پارلیمنٹ اور اداروں کے حوالے سے پروگرام چلائے جاتے ہیں سپریم کورٹ کے احکامات کے بغیر پیمرا کو کارروائی کرنے چاہیے تھی۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ پروگرام ابھی تک چل رہا ہے مکمل عمل درآمد نہیں ہوا قانون کی بہتری میں اگر مدد کی ضرورت ہے تو مثبت تجاویز بھی دی جانی چاہیں سینیٹر مشاہد اللہ نے سوال اٹھایا کہ اے آر وائی کے معاملے میں شکایا ت کونسل کا کردار کیا رہا دیکھنے کی ضرورت ہے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہر چینل میں ایڈٹوریل کنڑول کمیٹی موجود ہے جس پر چیئرمین پیمرا نے آگاہ کیا کہ ہر چینل کو ایڈٹوریل کمیٹی بنانا لازمی ہے ۔کمیٹی کی طرف سے سفارش کی گئی کہ قانون کے تحت کمیٹی لازمی بنائی جائے جہاں نہیں وہاں کارروائی کی جائے۔سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ نیشنل میوزیم کراچی کو واپس وفاق میں 18 ویں ترمیم کے باوجود لانے کی افواء ہے جس پر آگاہ کیا گیا کہ اگلے اجلاس میں تفصیلات دی جائیں گی ۔سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ پاکستان کے کلچرل ورثہ اور علم و ادب کے حوالے سے موجود ادارے اور دفاتر صرف نوکریاں فراہم کرتے ہیں زیادہ تر بجٹ ملازمین کی تنخواہ میں چلا جاتا ہے اداروں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے ۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ انتہائی اہم معاملہ سامنے لایا گیا ہے کلچر ، آرٹ، ادب ، شاعری مفقود ہوتی جارہی ہے جن کو ہم نے بہت عرصے سے نظر انداز کیا ہوا ہے ازسرنو غور کیا جانا چاہیے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کے بڑے ادیبوں اور شاعروں کو بھی یکجا کیا جانا چاہیے ۔سینٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ آئندہ ون پوائنٹ ایجنڈا کلچر ، ادب ، شاعری پر ہی ہوناچاہیے۔اجلاس میں لوک ورثہ کے ملازمین کو کمیٹی ہدایت کے باوجود پینشن نہ دینے پر سخت نوٹس لیا گیا ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ شکائت آئی ہے کہ ڈائریکٹر فوزیہ کمیٹی کی ہدایت پر عمل نہیں کر رہی مزید ملازمین کا نکا جارہا ہے اور کنٹریکٹ پر بھاری تنخواہوں پر نوکریاں دی جارہی ہیں۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز فرحت اللہ بابر، یعقوب ناصر ، اکشوک کمار، مشاہد اللہ خان، نہال ہاشمی، غوث نیازی، کریم خواجہ، سسی پلیجو، رونینہ خالدکے علاوہ سیکرٹری وزارت صبا محسن، چیئرمین پیمرا ابصار عالم اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔