موبائل بینکاری کے ذریعے بینکاری، ایم کامرس اور مالی شمولیت میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے،یاسین انور

کراچی۔۔۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جناب یاسین انور نے کہا ہے کہ برانچ لیس بینکاری نے ملک بھر میں اب تک شاندار ترقی کی ہے اور کسی کو شبہ نہیں رہا کہ موبائل فون کے ذریعے بینکاری، بینکاری، ایم کامرس اور مالی شمولیت میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔آج کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں ’پاکستان میں موبائل بینکاری‘ پر چھٹی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایم بینکاری اور ایم کامرس کی ترقی سے آبادی کے بینکاری سے محروم طبقے تک مالی خدمات پہنچانے اور اس طرح اس طبقے کو با اختیار بنانے میں مدد ملے گی۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے مرکزی پالیسی مقاصد کا ہدف بینکاری نظام کے تحفظ، صحت اور کارکردگی کو یقینی بنانا اور صارفین کے مفادات کا تحفظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ برانچ لیس بینکاری قومی ادائیگی کے شعبے کا لازمی جز بنتی جارہی ہے اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو داخلی خطرات کم کرنے کے لیے موزوں اقدامات کو یقینی بنانا چاہیے، جن میں سسٹمز تک غلط افراد؍مجرموں جیسے ہیکرز، منی لانڈررز، دہشت گردی کے لیے مالی رقوم فراہم کرنے والوں کی رسائی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک بینکاری کے ایسے غیر روایتی طریقوں میں موجود خطرات سے پوری طرح آگاہ ہے اور سسٹم اور ادارے دونوں کی سطح پر حالات اور منسلکہ خطرات کی فعال انداز میں نگرانی کررہا ہے تاکہ اصلاح کے لیے بروقت موزوں اقدامات کیے جاسکیں۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ برانچ لیس بینکاری مشکل ادوار میں گورنمنٹ ٹو پرسنز (Government to Persons, G2P) ادائیگیاں پہنچانے کے لیے بھی مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی ہے جیسے اندرون ملک بے گھر افراد (Internally Displaced Persons, IDPs) اور پچھلے دو سال کے تباہ کن سیلاب کے متاثرین کی خدمت۔ اسی طریقے سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے افراد کی خدمت بھی کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں توقع ہے کہ یہ چینل مالی شمولیت کے فروغ اور گورنمنٹ ٹو پرسنز پروگراموں کے انتظام کے سلسلے میں کردار ادا کرتا رہے گا جیسے تنخواہوں کی تقسیم، پنشن، بی آئی ایس پی، وطن کارڈز، پاکستان کارڈز اور ٹیکس وصولی کی خدمات وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ برانچ لیس بینکاری کا موجودہ نظام پاکستان میں G2P کے 10 ملین سے زائد ممکنہ وصول کنندگان کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔یاسین انور نے کہا کہ ایزی پیسہ، اومنی، موبائل کیش اور ٹائم پے سمیت برانچ لیس بینکاری کے چار ماڈلز مکمل طور پر فعال ہو چکے ہیں جبکہ دو ماڈلز کے لائیو پائلٹس (live pilots) جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ برسوں کے دوران برانچ لیس بینکاری کی موجودہ شرح نمو میں مزید تیزی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ برانچ لیس بینکاری صارفین کو خدمات فراہم کرنے والے ایجنٹ نیٹ ورک میں ایجنٹوں کی تعداد 42000 تک پہنچ گئی ہے۔ اس لیے ان ایجنٹوں کے ذریعے اب ملک کے دور دراز ترین علاقوں میں بنیادی مالی خدمات تک رسائی ممکن ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک 813 ارب روپے کی 194 ملین ٹرانزیکشنز کی گئی ہیں اور 2 ملین سے زائد ایم والٹس (m-wallets) کھولے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تعداد میں نمایاں بہتری آئے گی۔ ادائیگی کے نظاموں اور برانچ نیٹ ورک کے انفراسٹرکچر میں بھی نمو کا رجحان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے ٹی ایم نیٹ ورک بڑھ کر 6,232 تک پہنچ چکا ہے جبکہ برانچ نیٹ ورک بڑھ کر 11,600 ہو چکا ہے اور 94 فیصد برانچیں ریئل ٹائم آن لائن خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ پلاسٹک کارڈز کی تعداد بڑھ کر 20 ملین اور پی او ایس مشینوں کی تعداد 34,000 یونٹس تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اہم کامیابی ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بینکاری سہولتوں سے محروم لاکھوں کروڑوں افراد کو اس انفراسٹرکچر کے فوائد پہنچانے کا موقع موجود ہے۔انہوں نے تسلیم کیا کہ برانچ لیس بینکاری نے قلیل مدت میں اہم قدروقیمت حاصل کرلی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ کو اپنی توجہ پہلی سطح کی خدمات (فرد سے فرد کو، بلوں کی ادائیگی) سے دوسری سطح کی خدمات (اکاؤنٹ سے اکاؤنٹ کو، اور انٹربینک ٹرانسفر) کی طرف منتقل کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے میں موجود اداروں کو اپنی پراڈکٹس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے انہیں مارکیٹ میں نئی پراڈکٹس اور خدمات پیش کرنی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک لازمی ارتقائی عمل کا حصہ ہونا چاہیے جس سے اس شعبے کی پائیدار طویل مدتی ترقی یقینی ہوسکے گی، چھوٹی بچتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ٹارگٹ مارکیٹ میں شمولیتی مالی خدمات کے تقاضے پورے کرنے میں مدد ملے گی۔