Telecom companies funds (URDU)

ٹیلی کام کمپنیوں کے 45ارب روپے وفاقی حکومت کے اکاؤ نٹس میں منتیقل کرنے کا فیصلہ
فند کو بے نظیر انکم سپورٹ سکیم میں استعمال کئے جانے کا امکان ،تیلی کام سیکٹر میں اضطراب
پہلے بھی فنڈ پر قبضہ کی کوشش کی گئی

اسلام آبا د(، خصوصی رپورٹ)حکومت کی طرف سے ٹیلی کام اداروں کے فنڈز کو بے نظیر انکم سپورٹ سکیم کے لئے حاصل کرنا کا امکان ہے اس سلسلے میں ٹیلی کام ایکٹ 1996 ؁ء میں تر میم کی جا رہی ہے جس پر ٹیلی کام سیکٹر میں اضطراب پھیل چکا ہے ۔اور شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ وزارتِ خزانہ نے ٹیلی کام کمپنیوں کے فنڈز جو کہ 45ارب روپے سے زیادہ ہیں کو وفاقی حکومت کے
اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے زرائع کے مطابقوزارِ کزانہ نے وزارتِ انفار میشن ٹیکنالوجیوٹیلی کام کو مراسلہ نمبر u.o.no-1(1)2010-DS-BR-11بھجوایا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وزارتِ خزانہ ٹیلی کام ( ری آرگنائزیشن) ایکٹ1996 کی شق 33ای(1)(اے)میں تر میم کرنے جا رہی ہے جو کہ درج ذیل ہے۔”یونیورسل سروسز فنڈ اور ریسرچ ایند ڈویلپمنٹ فنڈ کے اکاؤنٹس فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹس میں رکھے جائیں گے اور ان اکاوئنٹس کو وفاقی حکومت کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق آپریٹ کیا جائے گا “اس مجوزہ ترمیم پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام نے متعلقہ فریقوں سے مشاورت شروع کر دی ہے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام کے ماتحت یونیورسل سروسز فنڈ اور ریسرچ ایند ڈویلپمنٹ فنڈ دو کمپنیوں کی شکل میں قائم ہیں جن میں تمام فنڈ موبائل فون اور دیگر ٹیلی کام اداروں کے ریوینو سے حاصل ہوتے ہیں ۔جو جنرل سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی سمیت دیگر حکومتی احکامات کے تحت وصول ہونے والے وسائل سے الگ ہیں ان اداروں کا انتظام بھی نجی ٹیلی کام کے ڈائریکٹر ز اور حکومتی عہدیداروں کے اشتراک سے ہی چلایا جا رھا ہے یونیورسل سروسز فنڈ ( یو این ایف)اور ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ فنڈ (آر اینڈ ڈی) کے آکاو ئنٹس میں جمع ہونے والی رقم کی تقسیم اور سرمایہ کاری کی منظوری 3رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی دیتی ہے جس میں وزارتِ خزانہ اور دیگر دو وزارتوں کے وفاقی سیکرٹریز شامل ہیں ۔ یو ایس ایف فنڈ کی رقوم ملک کے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں ٹیلی فون اور انٹر نیٹ سروسز کی فراہمی پر خرچ ہوتی ہیں جبکہ آر اینڈ ڈی فنڈ سے 10ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات کو وظائف دئے جا رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تحقیقی پروگرام جاری ہے دونوں کمپنیوں کے حسابات کی نگرابی اندرونی اور بیرونی نظام کے تحت کی جاتی ہے وزیراعظم کے سابق مشیر سردار لطیف کھوسہ کے دور میں ان کمپنیوں کے فنڈز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن قواعد و ضوابط
رکاوٹ بن گئے تھے تو بورڈ آف ڈائر یکٹر ز کو تبدیل کرنے اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر اپنی مرضی سے تعینات کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ٹیلی کام سیکٹر سے شدید مزاحمت کی گئی حتیٰ کہ معاملہ عدالت میں چلا گیا۔تاہم سردار لطیف کھو سہ نے دونوں کمپنیوں کے خلاف الزامات کی طویل فہرست جاری کر کے اپنا غصہ اتارنے کی کوشش کی بعد اذاں انہیں اپنے اختیارات اور پھر عہدے سے ہاتھ دھونے پڑھے تھے۔وزارت خزانہ کی طرف سے ٹیلی کام ایکٹ میں ترمیم کے فیصلہ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ٹیلی کام اداروں کے عہدیداروں نے بتایا کہ دو کمپنیوں کا قیام حکومت کی غیر جانبدارانہ پالیسی اور وعدوں کے نتیجہ کے عمل میں آیا تھا۔ ان کمپنیوں کے اکاونٹس وفاقی حکومت کومنتقل ہونے سے محروم ہو جائیں گے۔اور جس طرح حکومت کے دیگر ادارے اپنی ضرورتوں کیلئے و زارت خزانہ کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے ترقیاتی منصوبوں اور دوسرے پروگراموں کیلئے فندز کا حصول بھی نا ممکن ہو جائے گا۔ٹیلی کام سیکٹر ٹیکسوں اورایکسائزڈ ڈیوٹی کی مد میں ہر سال اربوں روپئے سالانہ دے رہا ہے۔ اس لئے نجی کمپنیوں کے اکاؤنٹس کو وفاقی حکومت کے کنٹرول میں دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ٹیلے کام اداروں کی اپنی جمع کردہ رقوم ہیں جو رضاکارانہ طور پر دی جا رہی ہیں۔اگر حکومت نے مجوزہ ترمیم کا فیصلہ نہ لیا توہر محاز پر سخت مزاحمت کی جائے گی۔وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام کے ذمہ دار حکام نے جنگ کوبتایا کہ وزارت خزانہ کے مراسلہ پر کمپنیوں اور ٹیلی کام اداروں سے مشاورت کی جا رہی ہے۔چو نکہ دونوں کمپنیوں کے فنڈز میں جمع ہونے والی رقوم نجی شعبہ کی ملکیت ہے۔جس کے بعد ان اداروں کی مشاورت کے بعد بھی وزارت خزانہ کے مراسلے کا جواب تیا رکیا جائے گا۔