مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈان کو 100 دن پورے ہو چکے ہیں

جموں،12نومبر (ساؤتھ ایشین وائر):
 
مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈان کو 100 دن پورے ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان گذشتہ 70 سال سے جاری اس تنازعے میں اس وقت شدت آئی جب پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی کی  بھارتی  حکومت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرکے علاقے کو دو وفاقی اکائیوں یعنی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا۔ جس کے بعد سے خطے میں کرفیو جیسی صورت حال ہے۔
 لوگوں کو روزمرہ کے کاموں میں مشکلات کا سامنا ہے اور گلیوں محلوں میں ہونے والے مظاہروں اور  فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے باعث حالات معمول پر نہیں آسکے۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے کئی علاقوں میں ٹیلی فون اور موبائل سروس بحال کرنے، سڑکوں پر سے رکاوٹیں ہٹانے اور کرفیو میں نرمی جیسے اقدامات کا دعوی کیا  ہے ، جن کا مقصد علاقے کے حالات کو تشدد کی جانب جانے سے بچانا تھا۔بھارتی حکومت کے اس اقدام سے قبل ہزاروں اضافی فوجیوں کو کشمیر میں تعینات کیا گیا تھا۔فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد کے باعث کشمیر میں ذرائع آمدورفت تقریبا مفلوج ہو چکے ہیں۔پابندیوں کے باعث سینکڑوں سکول اور کالجز تین ماہ سے زائد عرصے سے بند ہیں اور طلبہ اس لاک ڈاؤن کے بدترین متاثرین ثابت ہو رہے ہیں۔ دکانداروں نے بطور احتجاج اپنی دکانیں بند کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
ان 100 دنوں میں سخت پابندیوں کے دوران دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی فوجی کشمیر کی سڑکوں پر جگہ جگہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے کچھ کو بعدازاں رہا کر دیا گیا۔ حکومت نے کشمیر کے بیرونی دنیا سے زیادہ تر مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند ہیں۔ یہاں تک کہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں چل رہی۔