مقبوضہ کشمیر:31اکتوبر کے بعد ؟ اپنا آئین، اپنا جھنڈا اور پہلے سے حاصل شدہ خصوصی حیثیت ختم ہو گئی

سرینگر،30اکتوبر(ساؤتھ ایشین وائر):
بھارتی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو جموں و کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی آیئنی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد ریاست تشویشناک صورتحال سے گزر رہی ہے۔
مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں، جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کردیا۔ساؤتھ ایشین وائرکی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تنظیم نو قانون 2019 کے تحت جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ ختم کیا گیا اور اس کے علاوہ کئی قوانین اور ریاستی کمیشنز کو ختم کر دیا گیا ہے۔مزید برآںکشمیر کی حیثیت کے حوالے سے کیا تبدیلیاںرونما ہوں گی۔ان کا جائزہ اس رپورٹ میں لیا گیا ہے۔
نئے قانون کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کا اپنا آئین، اپنا جھنڈا اور پہلے سے حاصل شدہ خصوصی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔ تنظیم نو قانون 2019 کے تحت جموں و کشمیر میں کئی قانونی اور انتظامی تبدیلیاں رونما ہوں گی، جن کا اطلاق 31 اکتوبر کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ کے زیر انتظام خطوں پر ہوگا۔ 
ماہرین قانون کے مطابق خطے کی تشکیل نو مقبوضہ جموں و کشمیر کے باشندوں کی زندگی پوری طرح سے بدل ڈالے گی۔ بی جے پی حکومت نے دفعہ 370 کو جموں وکشمیر اور لداخ کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا تھا اور انکے مطابق اس کے ہٹانے سے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے ایک ویب سائٹ القمرآن لائن کو بتایا کہ بی جے پی کی جانب سے دفعہ 370 کو ہٹانا غیر قانونی ہی نہیں بلکہ عوام کی خواہشوں کے خلاف بھی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں ڈوگرہ شاہی سے ہی دارالحکومت اور اس سے منسلک سبھی دفاتر گرمیوں میں سرینگر اور سردی کے ایام میں جموں منتقل ہوتے آئے ہیں، اس طرح دارالحکومت سال کے چھ مہینے سرینگر اور بقیہ چھ مہینے جموں منتقل ہوا کرتا ہے، تنظیم نو قانون کے تحت بھی دربار موو کا یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔ 
پبلک سروس کمیشن جموں و کشمیر میں برقرار اور پہلے کی طرح کام کرے گا جبکہ لداخ خطے میں یو پی ایس سی کے تحت بھرتیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
تنظیم نو قانون کے تحت عدالت عالیہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی اور ہائی کورٹ بدستور جموں، کشمیر اور لداخ کے لیے مشترکہ طور کام کرتی رہے گی۔ 
اس صورتحال میں عام کشمیری اس تبدیلی کے بارے میں اندیشوں اور وسوسوں کاشکار ہیں۔
………………