بھارت ان دنوں شدید معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ بے روز گاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے 

بھارت ان دنوں شدید معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ بے روز گاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے 
 کل آبادی میں سے 65 فیصد 35 برس کی کم عمر کے نوجوانوں ہیں ہر پانچ میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے
 تعداد سال 2018 تک ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔آٹو موبیل صنعت میں تقریبا ایک لاکھ مزدور بے روزگار
نوٹ بندی سے ساڑھے تین لاکھ افراد روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔معیشت کا موضوع بھارتی میڈیا کے لیے شجرِممنوعہ
 کوئی ماہر، دانشور  بھارتی معیشت پر بات کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ شدید تنقید اور منفی بیانات کا نشانہ بن جاتا ہے
نئی دہلی(کے پی آئی) بھارت ان دنوں شدید معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ بے روز گاری اور  غربت میں اضافہ ہورہا ہے  بھارت کی کل آبادی میں سے 65 فیصد 35 برس کی کم عمر کے نوجوانوں کی ہے جن میں سے اس وقت ہر پانچ میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے اور جن کی تعداد سال 2018 تک ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔آٹو موبیل صنعت میں تقریبا ایک لاکھ مزدور مندی کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے ہیں۔نوٹ بندی سے اب تک ساڑھے تین لاکھ افراد روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔معیشت کا موضوع نہ صرف بھارتی میڈیا کے لیے شجرِممنوعہ بن گیا ہے بلکہ اگر خدانخواستہ کوئی ماہر، دانشور یا مخالف سیاست دان ملکی معیشت پر بات کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ شدید تنقید اور منفی بیانات کا نشانہ بن جاتا ہے۔کے پی آئی کے مطابق  ان موضوعات پر بات کرنے کے برعکس ہندوستانی میڈیا کا اس وقت جو بڑا مشغلہ بن گیا ہے وہ مودی کی تعریف کرنا ہے یا ان کے ہر اقدام کو سراہنا ہے۔ اگر کوئی مودی کی پالیسیوں پر بات کرنے کی جرات بھی کرتا ہے تو اس سے سات پیڑیوں کا حساب چکایا جاتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی سابق براڈ کاسٹر اور  پی ڈی پی کی رہنما  نعیمہ احمد مہجور نے  برطانوی اخبار میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت کے اکثر ٹی وی چینلوں پر آج کل صرف وہ موضوع شاملِ بحث رکھے جاتے ہیں جن سے جذبات بھڑکائے جاسکیں۔ ان کا مقصد ہجومی تشدد کو شہہ دینا یا اقلیتوں پر خوف طاری کرنا ہوتا ہے تاکہ مہاراشٹر اور ہریانہ کے ریاستی انتخابات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملے۔ یہ حال ہی میں پارلیمانی انتخابات میں بھی دیکھا جا چکا ہے۔ایک تجزیہ نگار کے بقول: انتخابات کے دوران چونکہ ووٹروں کو ہندوتوا کی مفت روٹیاں کھلائی جا رہی ہیں جو فورا انہیں ہضم بھی ہو رہی ہیں لہذا اگلے دس برسوں تک حزب اختلاف کی جماعتوں کو فل الحال سنیاس لینا چاہیے۔ اس وقت تک جب ہندوتوا کی یہ روٹیاں ووٹروں کے پیٹ میں مروڑ پیدا نہیں کرتیں۔اپوزیشن پارٹیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ بھارتی معیشت انتہائی ابتر ہو رہی ہے لیکن کوئی ان کی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ نہ عوام اور نہ حکمران جماعت۔اگر کسی موضوع پر بات کرنے پر اعتراض ہے تو وہ معیشت ہے جو مندی کا شکار ہے، افراطِ زر کی شرح بڑھ رہی ہے، کاروبار دم توڑ رہا ہے، صعنتیں بند ہو رہی ہیں، بے روزگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور حکومت اس پر بات نہ کرنے کے ہر ممکن جتن کر رہی ہے۔معیشت کا موضوع نہ صرف میڈیا کے لیے شجرِممنوعہ بن گیا ہے بلکہ اگر خدانخواستہ کوئی ماہر، دانشور یا مخالف سیاست دان ملکی معیشت پر بات کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ شدید تنقید اور منفی بیانات کا نشانہ بن جاتا ہے۔حکمران جماعت کا ایک اصول بن گیا ہے کہ حکومت کے ہر فیصلے کی تعریف کی جائے۔ مثبت انداز میں ان فیصلوں پر مباحثے کرائے جائیں اور محض آر ایس ایس نظریات کے حامی ماہرین ٹی وی بحث میں پیش پیش رکھے جائیں۔چند روز قبل شعبہ اقتصادیات میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے بھارتی نژاد ابھیجیت بینرجی بھی اس وقت ہندوتوا کا ہدف بنے جب انہوں نے حال ہی میں مودی کی اقتصادی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی معیشت شدید بحران سے گزر رہی ہے اور نوٹ بندی نے یہاں کی صنعتوں کو کافی متاثر کیا ہے۔ ان کے بیان پر ہندوتوا کے بعض حامیوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکی شہریت رکھنے والے ابھیجیت کو بھارت پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ابھیجیت نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت معیشت کی اپنی پالیسیوں کی محدود سوچ کو فورا تبدیل نہیں کرتی تو بھارت کو ایک بڑے اقتصادی بحران کا سامنا کرنا ہوگا جس کو حکومت نے خرافات سے تعبیر کیا۔ پھر جب انہیں نوبیل انعام دینے کا اعلان ہوا تو بھارتی میڈیا فورا انہیں ہندوستانی لبادہ پہنا کر اپنے کھاتے میں ڈالنے کا پرچار کرنے لگا۔ جن سیاست دانوں نے ابھیجیت کو معیشت کی منفی تصویر کشی پر نشانہ بنایا تھا، وہ بھی ان کے حق میں ٹویٹ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ابھیجیت سے قبل نوبیل انعام یافتہ اور معاشیات کے ماہر امرتیہ سین نے حکومت کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کئی بار اس بات کو دہرایا ہے کہ بھارتی جمہوریت اور سیکولر روایات کو مودی حکومت سے شدید خطرہ لاحق ہوگئے ہیں۔ حکومت کی موجودہ پالیسیاں جمہوری ملک کو ہندو راشٹر بنانے پر گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2014 کے بعد سے معیشت ابتری دکھا رہی ہے اور بھارت میں خطِ غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بیشتر چینلوں نے امرتیہ سین کا بیان سرے سے گول کر دیا حتی کہ خبروں کے بلیٹن میں بھی اس کو بلیک آٹ کیا گیا جبکہ نیتی آیوگ کے سربراہ راجیو کمار نے نوبیل انعام یافتہ سکالر پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امرتیہ سین کو بھارت میں رہ کر یہاں کی اقتصادی اصلاحات کا مشاہدہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان اصطلاحات کا فائدہ کتنے غریبوں کو پہنچ رہا ہے۔ میڈیا نے امرتیہ سین کے بیان کو نظرانداز کرکے حکومت کی پالیسیوں پر تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر راگون راجن نے چند روز قبل ہی مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پالیسیاں ملک کو تاریکی اور غیر یقینی مستقبل کی جانب لے جا رہی ہیں۔ انہوں نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے یہ اقدامات دیرپا ثابت نہیں ہوں گے اور یہ بھارت کو لاطینی امریکی طرز پر گامزن کریں گے۔ ان کا کہنا تھا: جب معیشت اتنی کمزور ہو چکی ہے، اس وقت فلاحی پروگرام ترتیب نہیں دیے جاتے ہیں۔انہوں نے یہ باتیں امریکہ کی بروان یونیورسٹی میں او پی جندل لیکچر کے دوران کہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ معیشت ایک غیریقینی صورت حال سے گزر رہی ہے۔  میرے خیال میں اس کی وجہ حکومت کی حکمتِ عملی ہے جس نے غیر ضروری اقدامات کرکے معیشت میں سست رفتاری پیدا کی ہے۔ معاشی بحران سے ملک کی شرح نمو پانچ فیصد سے نیچے آگئی ہے جس پر ہر شہری کو تشویش ہونی چاہیے۔
#/S
Attachments area