پاکستان  سزائے موت پر سب سے زیادہ عمل درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ،رپورٹ جاری

پاکستان  سزائے موت پر سب سے زیادہ عمل درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ،رپورٹ جاری
فوجی عدالتوں نے 306 مقدمات کا فیصلہ سنایا اور ان میں سے 56 افراد کی سزاؤں پر عمل ہوا
قانونی  خامیوں  ناقص تفتیش اور متعقلہ عدالتوں میں استغاثہ کی کمزوریوں کی بھی نشاندہی
رواں سال اگست کے مہینے تک  333 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی  آٹھ افراد کو پھانسی  دے دی گئی
پشاور ہائی کورٹ  سے  فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 70 افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد روکنے کا بھی تزکرہ
20 برس کے دوران م 33 خواتین کو موت کی سزا سنائی  گئی کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا
جیلوں میں خواتین قیدی  کے  بچوں کی دیکھ بھال کے لیے انتظامات غیر تسلی بخش ہیں
ماورائے  عدالت قتل اور سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہلاکتوں  کا سختی سے نوٹس لینے کی سفارش
ساہیوال میں  بچوں کے سامنے قتل ہونے والے چار افراد  کے  ورثا  آج بھی انصاف کے منتظر ہیں رپورٹ

اسلام آباد (صباح نیوز)ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور انٹرنیشنل فانڈیشن آف ہیومن رائٹس نے پاکستان میں سزائے موت سے متعلق ایک مشترکہ رپورٹ تیار کی ہے جس میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی حالت زار اور جیلوں میں ناقص انتظامات کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر موت کی سزا پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے ۔ فوجی عدالتوں نے 306 مقدمات کا فیصلہ سنایا اور ان میں سے 56 افراد کی سزاؤں پر عمل ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ  سے  فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 70 افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد روکنے کا بھی تزکرہ کیا گیا ہے  رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جیلوں میں خواتین قیدی  کے  بچوں کی دیکھ بھال کے لیے انتظامات غیر تسلی بخش ہیں۔ ماورائے  عدالت قتل اور سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہلاکتوں  کا سختی سے نوٹس لینے کی سفارش کی گئی ہے اور یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ ساہیوال میں  بچوں کے سامنے قتل ہونے والے چار افراد  کے  ورثا  آج بھی انصاف کے منتظر ہیں  ۔اس رپورٹ میں جہاں ایک طرف قانون میں پائی جانے والی خامیوں کا ذکر ہے تو وہیں دوسری طرف پولیس افسران کی طرف سے مقدمات کی ناقص تفتیش اور متعقلہ عدالتوں میں استغاثہ کی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق  مشترکہ رپورٹ میں  ایسے 32 قوانین ہیں جن کی خلاف ورزی پر موت کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔سابق فوجی صدر ضیا الحق کے دور میں سب سے زیادہ ایسے قوانین متعارف کروائے گئے جن میں موت کی سزا دی جا سکتی تھی۔اس رپورٹ کے مطابق سنہ 2015 میں پاکستان کی مختلف عدالتوں نے 418 افراد کو پھانسی کی سزا سنائی اور 333 افراد کو پھانسی دی گئی۔سنہ 2016 میں 425 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی اور 89 افراد کو پھانسی دی گئی۔سنہ 2017 میں مختلف عدالتوں نے 260 افراد کو موت کی سزا سنائی اور عدالتی فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے 64 افراد کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔سنہ 2018 میں 347 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی اور 14 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ رواں سال اگست کے مہینے تک مختلف عدالتوں نے 333 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے اور اب تک آٹھ افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔اس عرصے کے دوران فوجی عدالتوں نے 306 مقدمات کا فیصلہ سنایا اور ان میں سے 56 افراد کی سزاؤں پر عمل ہوا۔رپورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انھوں نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 70 افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا۔رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ گذشتہ 20 برس کے دوران مختلف عدالتوں نے 33 خواتین کو موت کی سزا سنائی ہے تاہم ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ جن خواتین کو موت کی سزا سنائی گئی ان پر زیادہ تر منشیات اور گھریلو جھگڑوں کے مقدمات تھے۔رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایسی خواتین قیدی جن کے بچے بھی ہیں اور وہ بچے چھ سال کی عمر تک اپنی والدہ کے ساتھ جیل میں رہ سکتے ہیں تاہم جیلوں میں ان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے انتظامات غیر تسلی بخش ہیں۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سنہ 2004 سے لے کر رواں سال اگست کے مہینے تک 5089 افراد کو مختلف عدالتوں کی طرف سے سزائے موت سنائی گئی جبکہ گذشتہ سات سال کے دوران 1800 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جن میں سے 520 افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد ہوا۔پاکستان کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کا ذکر تو نہیں کیا گیا البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ان جیلوں میں قید افراد وہاں کی گنجائش سے بہت زیادہ ہیں۔مختلف جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کے لیے بنائی گئی بیرکوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان بیرکوں میں ایک سے دو افراد کے رہنے کی گنجائش ہے جبکہ وہاں پر چھ سے آٹھ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نکاسی آب کے ناقص انتظامات کی وجہ سے قیدی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں جہاں یورپی یونین کی طرف سے سزائے موت کو ختم کرنے کے مطالبے کو دہرایا گیا ہے وہیں غیر منصفانہ ٹرائل کے خاتمے اور اس ضمن میں قوانین میں ترامیم کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اعلی عدلیہ ماتحت عدالتوں کی طرف سے ایسے85 فیصد فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیتی ہیں جس میں ماتحت عدالتوں نے موت کی سزا سنائی ہوتی ہے۔پنجاب کے وسطی شہر سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ڈاکو قرار دیکر انھیں سرعام تشدد کرکے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے سات مجرمان کی سزاؤں کو دس دس سال قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے ۔انسانی حقوق کی دونوں تنظیموں نے ججز اور وکلا سے بھی بات کر کے ان کی آرا ء کو اس رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔ رپورٹ میں جدید خطوط پر تفتیش کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالتوں میں اپنی مرضی کے گواہ پیش کرنے کی بجائے جائے حادثہ سے فرانزک بنیادوں پر ایسے شواہد اکھٹیکریں جسے کوئی عدالت جھٹلا نہ سکے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی خاندان کے فرد کو سزائے موت ہو جائے تو اس خاندان کے دوسرے افراد پر نفسیاتی اور معاشرتی دباؤ رہتا ہے جبکہ اس کے علاوہ مقدمات لڑنے کی وجہ سے سماجی اور اقتصادی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ پاکستان میں انسداد تشدد ایکٹ فوری طور پر نافذ کروایا جائے اور اس کے علاوہ ماورائے قتل اور قانون نافد کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہلاکتوں کے واقعات کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور ایسے افراد کے خلاف کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ماہر قانون عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل  کی روک تھا م سے متعلق اس طرح کے اقدامات نہیں کیے گئے جو کیے جانے چاہیے تھے۔ انھوں نے کہا کہ قانون کے رکھوالوں نے ساہیوال میں چار افراد کو مبینہ طور پر شدت پسند قرار دیکر انھیں قتل کردیا لیکن آج تک مقتولین کے ورثا انصاف کے منتظر ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ تھانوں میں بھی تشدد کے دوران درجنوں ملزموں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر ان واقعات میں ملوث پولیس اہللکار عدم ثبوت کی بنا پر بری ہوجاتے ہیں۔ان دونوں تنظیموں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی حکام انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کو ان عدالتوں میں بیٹھنے کی اجازت دیں جہاں پر ایسے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو جس میں ملزم کو موت کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی انسانی حقوق کی تنظیموں نے فوجی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے درخواست کی تھی جو مسترد کرد ی گئی۔
#/S