مقبوضہ کشمیر،لاک ڈان کے سبب ٹیلی کام سیکٹر کو ایک ارب روپے سے زائد کا نقصان

 مقبوضہ کشمیر،لاک ڈان کے سبب ٹیلی کام سیکٹر کو ایک ارب روپے سے زائد کا نقصان
مواصلاتی ناکہ بندی نے کشمیر کو ایک دہائی کے پیچھے دھکیل دیا  گیاصورتحال 2014  سے بدتر
کشمیر میں کوئی بھی اب اسمارٹ فون خریدنے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہیکاروبار بری طرح متاثر ہے
سری نگر(کے پی آئی)بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری مواصلاتی ناکہ بندی نے نہ صرف موبائل کمپنیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے بلکہ موبائل فون کے تمام سرکردہ برانڈز کے کاروبار کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تقریبا سات ہفتوں سے جاری لاک ڈان کے سبب ٹیلی کام سیکٹر کو ایک ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔05 اگست سے جب نریندر مودی کی زیرقیادت ہندوستانی حکومت نے اس علاقے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا تب موبائل مقبوضہ کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ سروسز ختم کردی گئی تھیں اور کالنگ پر بھی پابندی عائد ہے۔ایک ٹیلی کام کمپنی کے عہدیدار نے بتایا کہ اگر ہندوستانی حکومت مقبوضہ کشمیر میں موبائل سروسز اور ڈیٹا پر پابندیاں ختم نہیں کرتی  توموبائل فون آپریٹرز کے لئے اپنی سروسزجاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔دو سرکردہ موبائل فون برانڈز کی ڈیلرشپ کے مالک مدثر بھٹ نے بتایا کہ مواصلات کی ناکہ بندی نے نہ صرف ان کے بلکہ اس تجارت سے وابستہ ہر شخص کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ 5 اگست سے پہلے ، ہم ہر روز اوسطا 20 لاکھ روپے کے موبائل فون فروخت کرتے تھے۔ تاہم ، جب سے کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز پر پابندی عائد کی گئی ہے  اس کے بعد ہماری سیل تقریبا صفر ہوچکی ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ  مواصلاتی ناکہ بندی نے کشمیر کو ایک دہائی کے پیچھے دھکیل دیا ہے اورصورتحال 2014 کے سیلاب سے بھی بدتر ہے۔مدثر بھٹ نے کہا کہ کاروباری نقصان ایک طرف ، مجھے یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ کمپنیوں کے ساتھ میری ڈیلرشپ جاری ہے یا نہیں۔ پچھلے دو ماہ سے ، انٹرنیٹ کی بندش کے باعث میں ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کر پارہا۔ مواصلات پر پابندی نے اسمارٹ فونز کو بیکار کردیا ہے ، کیوں کہ آج کل لوگ ان گیجٹ کو صرف وقت دیکھنے اور گیمز کے لئے استعمال کرتے ہیں۔   موبائل فونز کے ایک تاجر مشتاق احمد کو خدشہ ہے کہ اگر جاری بحران ختم نہ ہوا تو ان کا کاروبار ختم ہوجائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کے بغیر اسمارٹ فونز گولیوں کے بغیر بندوق کی طرح ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا ، کشمیر میں کوئی بھی اب اسمارٹ فون خریدنے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے اور ہماراکاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔کشمیر میں اگرچہ 2003 میں موبائل کی سروسزکئی برس کی تاخیر کے بعد شروع کی گئی تھیں،پھر بھی تمام سرکردہ آپریٹرز اور موبائل برانڈز نے وادی کی مارکیٹ میں کامیابی کے ساتھ لانچنگ کی تھی۔ وادی کشمیر میں انسانیت سوز بحران مزید گہرا ہوتا جارہا ہے کیونکہ رہائشیوں کو اشیائے خوردونوش ، دودھ اور جان بچانے والی ادویات جیسی بنیادی ضروریات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
#/S