پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے، اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ

 پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے، اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ
اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے
اسرائیلیوں کا  موقف ہے انہوں نے ہمیشہ پاکستان سے تعلق رکھنے کے لیے پہل کی ہے
سعودی عرب ٹرمپ کی سربراہی میں اسرائیل سے امن کا معاہدہ کرتا ہے تو پاکستان کو اسرائیل کیساتھ مل بیٹھنے میں شاید زیادہ وقت نہیں لگے گا
انتہائی سنسر شپ کا شکار پاکستان کا میڈیا  بغیر آشیرباد کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم نہیں چلا سکتا

اسلام آباد(صباح نیوز) اسرائیلی خبر رساں ادارے ہاریتز

نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے، عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلق تیزی سے استوار کر رہے ہیں پاکستان کو بھی ریاض و واشنگٹن سے گرین سگنل ملنے کا انتظار ہے، اگرسعودی عرب ٹرمپ کی سربراہی میں اسرائیل سے امن کا معاہدہ کرتا ہے تو پاکستان کو  اسرائیل کیساتھ مل بیٹھنے میں شاید زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق پاکستان کا میڈیا جو انتہائی سنسر شپ کا شکار ہے، بغیر آشیرباد کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم نہیں چلا سکتا۔ پاکستان اور بھارت کی کشمیر میں ہونے والی پیش رفت پر مسلسل اسرائیلی میڈیا و سوشل میڈیا پاکستان کا ساتھ دیتا نظر آتا ہے اور وہ بھی یہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ جبکہ اسرائیلی یہ موقف رکھتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان سے تعلق رکھنے کے لیے پہل کی ہے۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون نے جناح کو خط لکھا لیکن اسکا کوئی جواب نہ آیا۔ عرب اسرائیل جنگ میں بھی پاکستان نے درپردہ عربوں کی مدد کی جبکہ اس کے برعکس سوویت جنگ میں اس کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ امریکی چھتری تلے کام بھی کرتی رہی۔مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں جب اس کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے امریکی آشیرباد کے بعد عرب ممالک خصوصا سعودی عرب اور عرب امارات آگے بڑھے اور عالمی بینک نے بھی مدد کی حامی بھری تا کہ واشنگٹن کو اس کی پالیسی سازی میں حصہ ملے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جب عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلق تیزی سے استوار کر رہے ہیں پاکستان کو بھی ریاض و واشنگٹن سے گرین سگنل ملنے کا انتظار ہے۔ اگر سعودی عرب ٹرمپ کی سربراہی میں اسرائیل سے خطے میں امن کا معاہدہ کرتا ہے جس کے بارے میں کہا یہ جارہا ہے کہ اس کا مسودہ بھی تیار ہے اور اس کے لیے رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے تو ایسے میں پاکستان کو اپنے دوست ممالک کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ مل بیٹھنے میں شاید اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔واضح رہے کہ کچھ ماہ قبل ایک اسرائیلی صحافی نے ا سرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی اسلام آباد آمد کی خبر چلائی جس پر کافی چہ مگوئیاں ہوئیں دونوں طرح کا ردعمل سامنے آیا لیکن جس بات کو اسرائیلی میڈیا اور سوشل میڈیا میں بریکنگ نیوز کی طرح دیکھا گیا وہ پاکستان کے چند نامور صحافیوں کا اسرائیل کے تعلقات اور اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کو کھل کر بیان کرنا اور رائے عامہ بنانا ہے۔اس بات کو اہمیت اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ بقول اسرائیلی میڈیا پاکستان میں جہاں سینسرشپ عروج پر ہے اور صحافی ایک ٹویٹ اپنی مرضی سے نہیں لگا سکتے وہاں نامور میڈیا چینلز کا یوں کھل کر بات کرنا بغیر آشیرباد کے  ممکن نہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پہلی بار مشرف کے دور میں پاکستان اور اسرائیلی وزرائے خارجہ کی پہلی  ملاقات ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی۔پاکستان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی ابتدا بھی جنرل مشرف نے پیرس میں ایک انٹرویو میں کی جس میں انہوں نے کہا کہ اب وقت بدل گیا ہے اسرائیل ایک حقیقت ہے اور اس کے ساتھ بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اب جب عرب بشمول فلسطینی بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہے ہیں تو پاکستان کو بھی اس پر سوچنا چاہیے۔ اس انٹرویو کے صرف دو برس بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ پہلی بار ملے اور یہ دونوں ممالک کے قیام کے بعد پہلی ملاقات تھی۔

[Message clipped]  View entire message

Attachments area