سوروں کے ایک فارم سے کروناوائرس انسانوں میں منتقل ہوا —1918 کی میڈیکل رپورٹ

تحریر سید حسین شاہ
سن 1918 میں میڈیکل کی دنیا میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی۔ جس میں لکھا گیا تھا کہ سوروں کے ایک فارم سے ایک نیا وائرس انسانوں میں منتقل ہوگیا ہے۔ اس وائرس کو کرونا وائرس کا نام دیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک کرونا سات مرتبہ مختلف قسم کے حیتیاتی نمونوں کی شکل میں انسانوں پر حملہ آور ہو چکا ہے۔ موجود کرونا وائرس کو سائنسی زبان میں 2 SARS COV کا نام دیا گیا۔ یہ وائرس 2019 کے آخری دنوں میں چین کے شہر ووہان میں رپوٹ ہوا۔ اس مناسبت سے اسے COVID 19 بھی کہتے ہیں۔وائرس حیاتیاتی لحاظ سے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک کو RNA اور دوسری قسم کو DNA وائرس کہتے ہیں۔ کرونا وائرس ایک RNA وائرس ہے۔ RNA وائرس سائنسی لحاظ سے ایک درد سر ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس وائرس کا ویکسین بہت ہی مشکل سے بنتا ہے۔
کسی بھی وائرس کو ختم کرنے کے دو بڑے طریقے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی کو ویکسین لگا دی جائے۔دوسرا یہ کہ تمام لوگ وبا میں مبتلا ہو کر اپنے قوت مدافیت کی مضبوطی کے وجہ سے ٹھیک ہو جائیں یا مر جائیں۔اب اگر پہلی آپشن کی طرف جائیں۔تو اس وقت دنیا کی کل آبادی تقریباً سات اعشاریہ اٹھ ارب ہے۔ ساٹھ فیصد کا مطلب چار اعشاریہ سات ارب لوگوں کو ویکسین مہیا کرنا۔ اب اس میں مشکل یہ ہے کہ اول تو اس وقت ویکسین موجود نہیں ہے۔اور اگر ویکسین آبھی جائے تو اب تک انسانی تاریخ میں کسی بھی ویکسین کی ایک ارب کاپیاں نہیں بنی ہیں۔ اور یہاں چار اشاریہ سات ارب کاپیاں درکار ہیں۔ یہی نہیں چار اعشاریہ سات ارب کاپیاں بنانے کے لیے درکار دیگر سامان بھی مہیا نہیں کیا جاسکتا۔
ویکسین کی تیاری کے عمل میں کل تین فیزیز ہوتے ہیں۔ ایک میں ایک چھوٹا کنٹرول گروپ ہوتا ہے۔ دوسرے فیز میں کنٹرول گروپ کے افراد کا دائرہ سینکڑوں لوگوں تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اور تیسرے فیز میں یہ دائرہ ہزاروں لوگوں تک بڑھایا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران تقریباً پانچ ہزار لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔اور اس عمل کو پورا کرنے میں تقریباً چار سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ کرونا وائرس چونکہ مکمل طور سے ایک نیا وائرس نہیں ہے۔ اس وائرس کی ساخت SARS اور MARS وائرس سے ملتی جلتی ہے۔ اس لیے یہ اُمید کی جارہی ہے کہ ویکسین اٹھارہ ماہ میں دستیاب ہو جائے گی۔
اس وقت ایک سو سات مختلف کمپنیاں اور ادارے دعویٰ کر رہے ہیں۔کہ ان کی ویکسین کا پہلا فیز کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے۔ ان کمپنیوں میں جونسن اینڈ جونسن اور میڈرونا سرفہرست ہیں۔ اب اُمید کی جارہی ہے کہ اگر ان کمپنیوں کے ویکسین اگلے دو فزیز بھی کامیابی سے عبور کر لیں تو اگلے سال کے آخر تک ویکسین مارکیٹ میں دستیاب ہو جائے گا۔ ویکسین کی تیاری کے ساتھ ساتھ ویکسین کی قیمت بھی ایک معمہ ہے۔ کیوں کہ اگر ویکسین کی قیمت زیادہ ہوئی تو غریب ممالک اس سے محروم رہ جائیں گے۔ اور اگر وہ محروم رہتے ہیں۔تو ساٹھ فیصد لوگوں تک ویکسین نہیں پہنچے گی۔اور وائرس کا خطرہ بدستور برقرار رہے گا۔ جونسن اینڈ جونسن نے اعلان کیا ہے کہ اُن کی ویکسین کی ایک کاپی دس ڈالر میں دستیاب ہوگی۔ اب اگر اس قیمت کو بھی دیکھیں تُو یہ اچھی خاصی قیمت ہے۔ یہاں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ویکسین کے لیے غریب ممالک آئی ایم ایف وغیرہ سے مزید قرضے لینگے اور مزید غربت کی لکیر کے نیچے دنس جائیں گے۔
امریکی کرونا وائرس ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فوسی نے حال ہی میں سی این این کو ایک انٹرویو دیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ معمولات زندگی کا بحال ہونا 2021 کے آخر تک ممکن نہیں۔ پاکستان نے اس وقت تعلیمی ادارے کھول دیے ہیں۔ سندھ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے تعلیمی اداروں میں کل چودہ ہزار ٹیسٹ کیے۔جن میں تین ہزار ٹیسٹوں کی رپورٹس آ چکی ہیں۔ ان تین ہزار میں سے نواسی لوگوں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ یہ تعداد تقریباً 2.97 فیصد بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وائرس پھلنے کی رفتار اب بھی وہی ہے۔جو رفتار اپریل یا مئی میں تھی۔ اس رپورٹ سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر فوسی کی بات درست ہے۔اور اس وقت معمولات زندگی کا بحال ہونا مشکل ہے۔
دنیا میں کورونا سے پہلے بھی بہت سی عالمی وبائیں آ چکی  ہیں۔ ان سب کے دورانیے پر نظر ڈالی جائے تو ہر وبا کم سے کم دو سے تین سال تک رہی ہے۔ اس کے بعد ہر وبا خود بہ خود ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ویکسین وغیرہ سے اسے ختم کرنے کے بارے میں سوچیں تو یقیناً ہر بندہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوگا کہ یہ معاملہ ویکسین وغیرہ سے ختم کرنا نا ممکن ہے۔ یہ وائرس ساری دنیا پر اللّٰہ کا امتحان ہے۔ وہ جب چاہے اسے ختم کردے۔ کیوں کہ انسان کے پیش کردہ طریقہ کار سے تو اسے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ سائنس جتنی بھی ترقی کر لے۔آخر کار ایک حد کے بعد اس کی دسترس ختم ہو جاتی ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ وہی اللّٰہ ہے جو اس دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے۔