اپوزیشن،، پاکستان جمہوری تحریک …انتخابات میں فوج اور ایجنسیوں کا کوئی کردارنہیں ہونا چاہیے.،قرارداد

اپوزیشن کا ،، پاکستان جمہوری تحریک   ،، کے نام سے نیا اتحاد قائم    …ربڑ سٹمپ پارلیمینٹ میں کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا ،قرارداد

میں فوج اور ایجنسیوں کا کوئی کردارنہیں ہونا چاہیے …اسمبلیوں سے مستعفی ہونا بھی آپشنز میں شامل

اسلام آباد (ویب ڈیسک )متحدہ حزب اختلاف نے  مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان نیازی  فوری طورپر مستعفی ہوں ۔جنوری 2012میں  اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا ۔ انتخابات میں فوج اور ایجنسیوں کا کوئی کردارنہیں ہونا چاہیے . ربڑ سٹمپ پارلیمینٹ میں کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا ۔ قبائلی اضلاع کو نوگوایریا بنا دیا گیا ہے یہ سلسلہ ختم کیا جائے عقوبت خانے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے ۔  فوری عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے  حکومت مخالف ملک گیر تحریک چلانے اور  پاکستان جمہوری تحریک   ،، کے نام سے نیا اتحاد قائم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے ۔حکومت  کو سقوط کشمیر کی زمہ دار قراردیا گیا ہے ۔ وفاقی اور صوبائی دارلحکومتوں میں احتجاجی مظاہرے اور جلسے ہونگے  آخر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا آپشن بھی ہوگا ۔ ملک گیر حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے تحت  اکتوبر میں احتجاج اور عوامی ریلیاں نکالی جائیں گی جس میں تمام اپوزیشن جماعتیں شریک ہوں گی۔ دسمبر میں حکومت مخالف احتجاج کیا جائے گا اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا  حکومت کو صرف جنوری تک وقت دیا گیا ہے تحریک عدم اعتماد کا آپشن بھی ضرورت پڑنے پراستعمال کیا جائے گا۔ اسمبلیوں سے مستعفی ہونا بھی آپشنز میں شامل ہوگا جب کہ ٹروتھ کمیشن قائم کیا جائے گا، میثاق پاکستان  ،، کی تیاری کیلئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے ، یہ اعلان  اتوار کو اسلام آباد میں متحدہ حزب اختلاف کی9گھنٹے سے  زائد جاری  اے پی سی  کی  قرارداد اور پلان آف  ایکشن میں کیا گیا ہے۔  اے پی سی سربراہ  بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں ہوئی ۔سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی خطاب کیا۔11 جماعتوں کی اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔ اپوزیشن  لیڈر شہباز شریف اور میزبان  اے پی سی کے ہمراہ  ساڑھے نو بجے رات  مشترکہ پریس کانفرنس میں سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے  قرارداد اور پلان آف ایکشن پڑھا۔ ۔پلان ایکشن جاری کردیا گیا ہے  26نکات پر مشتمل مشترکہ  قرارداد  میں کہا گیا ہے کہ آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام پر یقین رکھنے والی قومی سیاسی جماعتوں کا اتحاد  ” پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ” کے نام سے تشکیل دیا گیا ہے یہ اتحادی ڈھانچہ عوام اور غری دشمن حکومت سے نجات  کیلئے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظر اورمربوط انداز میں چلائے گا  اور رہنمائی کرے گا۔ اجلاس نے قرار دیا کہ موجودہ سلیکٹڈ حکومت کو مصنوعی استحکام اس اسٹیبلشمنٹ  نے بخشا ہے جس نے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے  اسے عوام پر مسلط کیا۔ اجلاس  سے اسٹیبلشمنٹ  کے سیاست میں بڑھتے ہوئے  عمل دخل پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے ملک کی سلامتی اور قومی اداروں کیلئے خطرہ قرار دیا ۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ  سیاست میں ہر کسی قسم کی مداخلت فوری طورپر بند کرے۔ اسٹیبلشمنٹ کے تمام ادارے آئین کے تحت لئے گئے حلف اور اس کی متعین کردہ حدود کی پابندی  و پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت سے باز رہیں۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں شفاف ، آزادانہ ،غیر جانبدارانہ اور شفاف   انتخابات کا انعقاد  یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد  کے حصول کیلئے فی  الفور ایسی انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں مسلح فوج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل  نہ ہو۔ سلیکٹڈ  حکومت نے ریکارڈ توڑ مہنگائی ، بیروزگاری، ٹیسکوں کی بھرمار سے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ یہ اجلاس آٹے، چینی،  گھی ، بجلی، گیس  اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو فوری کم کرکے اعتدال پرلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ سلیکٹڈ حکومت کی ناکام پالیسیز  کے نتیجے میں تباہ حال معیشت پاکستان کے دفاع ایٹمی صلاحیت اور ملک کی باوقار خودمختاری  کے لئے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ اجلاس اعادہ کرتا ہے کہ 1973 کا آئین اٹھارویں ترمیم اور موجودہ  این ایف سی ایوارڈ قومی  اتفاق رائے کا منظہر ہیں ان پرحملوں کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا اور پوری قوت سے  صوبائی خودمختاری  کا تحفظ  کیا جائے گا اور ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادے کو رد کرتا ہے اور وفاقی پارلیمانی جمہوریت کو پاکستان کے تحفظ کا ضامن سمجھتا ہے۔ اجلاس دوٹوک انداز میں واضح  کرتا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی پر کوئی آنچ  نہیں آنے دی جائے گی اور نہ  ہی اس پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا۔یہ سلیکٹڈ حکومت سقوط کشمیر کی ذمہ دار ہے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور عالمی قانون کے منافی مودی سرکار کا عمل،پاکستان کی موجودہ کٹھ پتلی حکمرانوں کی ملی بھگت کا شاخسانہ ہے۔اجلاس سلیکٹڈ حکومت کی افغان پالیسی کی مکمل ناکامی پر شدید تشویش کااظہار کرتا ہے۔اجلاس میڈیا پر تاریخ کی بدترین پابندیاں لگانے،دبائو اور سنسرشپ کے حکومتی ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ  کرتا ہے کہ میر شکیل  الرحمن سمیت تمام دیگر گرفتار صحافیوں،میڈیا پرسز کو رہا کیا جائے اوران کے خلاف غداری اور درج دیگر بے بنیاد مقدمات خارج کیے جائیں۔اجلاس نے عزم ظاہر کیا کہ شہریوں اور میڈیا کی آزادیوں کو چھیننے  کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اجلاس سیاسی قائدین،رہنمائوں اور کارکنان کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات قائم کرنے،ان کی گرفتاریوں اور قید وبند کی صعوبتوں کی شدید مذمت اور ان کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے اجلاس سید خورشید شاہ اور حمزہ شہباز شریف سمیت سیاسی انتقام کا سامنا کرنے والے تمام قائدین  اور کارکنان کی جرات،بہادری اور استقامت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔اجلاس نے قراردیا کہ نیشنل ایکشن پلان،پر عمل درآمد نہیں  ہو رہا جس کی وجہ سے ملک کے اندر دہشت گ ردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اجلاس ملک میں امن وامان کی بگڑتی اور سنگین صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ  کی بنیادی آئینی ذمہ داری  ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اجلاس اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حالیہ فرقہ وارانہ تنائو میں اضافے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس معاملے میں حکومت کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کی شدید مذمت اور گہری تشویش ظاہر کرتا ہے اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے۔ سی پیک قومی معیشت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے نا اہل،کرپٹ اور ناتجربہ کار حکمرانوں نے سی پیک کو رول  بیک کر کے اس کا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا ہے اجلاس  مطالبہ کرتا ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار کو فی الفور تیز کیا جائے۔مغربی روٹ پر موٹر وے اور ریلوے ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کی جائے۔سلیکٹڈ حکومت نے پارلیمان کو بے توقیر اور بے وقعت کر کے مفلوج کر دیا ہے عوام کے آئینی،بنیادی ،قانونی اور انسانی حقوق کے منافی قانون سازی بلڈوز کی جا رہی ہے اور اپوزیشن کی آواز دبائی جا رہی ہے آج کے بعد ربڑ سٹمپ پارلیمنٹ سے اپوزیشن  کوئی تعاون نہیں کریگی۔اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ غیر آئینی ،غیر جمہوری،غیر قانونی اور شہری آزادیوں کے منافی قوانین کو کالعدم کیا جائے میڈیکل کمیشن سمیت بلڈوز کر کے جو قانون سازی کی گئی ہے اسے واپس لیا جائے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ گلگت بلتستان میں مقررہ وقت پر صاف ، شفاف اور بغیر کسی مداخلت کے انتخابات کرائے جائیں ، انتخابات کے بعد قومی اتفاق رائے سے گلگت بلتستان کو قومی  سیاسی دھارے میں شامل کرنے کیلئے اقدامات اٹائے جائیں ۔ اجلاس قرار دیتا ہے کہ گلگت بلتستان کا علاقہ بہت حساس  ہے وہاں انتخابات میں ایجنسیز کی مداخلت ختم کی جائے تاکہ کوئی بھی ان انتخابات کی شفافیت پر اعتراض نہ اٹھاسکے۔ اجلاس نے فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان کے انتخابی عمل پر گہری نظر رکھی جائے گی۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ قبائلی  علاقہ جات  کو نوگوایریاز بنا دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ ختم کیا جائے ۔ اجلاس  نے خیبرپختونخوا میں عقوبت  خانوں کے قیام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے  کے مطابق غیر قانونی جیلوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے۔ اجلاس نے منصف مزاج، غیر جانبدار ججوں کو ریفرنسز اور بے بنیاد مقدمات کے ذریعے جکڑنے  اور آئین ، قانون اور انصاف کے منافی فیصلے  کرانے کیلئے دبائو کے ہتھکنڈے  استعمال  کرنے کے واقعات پر شدید  تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مذمت کی ۔ اجلاس نے قرار دیا کہ یہ تمام واقعات آئین  کے تحت غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کے تصور  کیلئے سنگین دھچکا اور ملکی سلامتی کیلئے خطرناک ہیں۔ اجلاس نے پاکستان بار کونسل کی مورخہ 17 ستمبر 2020 کو منعقدہ اے پی سی میں منظور کردہ قرارداد کی توثیق کرتے ہوئے قراردیا کہ اعلیٰ عدلیہ  کی ججوں کی تقرری کا  موجودہ طریقہ کار ایک آزاد عدلیہ  کی راہ میں رکاوٹ ہے۔اس ضمن  میں پاکستان بار کونسل کی اے پی سی میں منظورکردہ متفقہ قرارداد کے نکات پرعمل کیا جائے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ  فیصلے، اسلامی نظریاتی کونسل  کی سفارشات ، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کی روشنی میں احتساب  کا نیا قانون بنایا جائے اور ملک کے تمام اداروں  اور افراد کا خواہ ان کا تعقل عدلیہ  یا ڈیفنس سروسز ، یا بیورو کریسی  یا پارلیمان سے وہ، ایک ہی قانون اور ادارے کے تحت احتساب کیا جائے۔ اجلاس  نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی اطلاعات و چیئرمین   سی پیک  اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کے بارے میں سامنے آنے والی حالیہ رپورٹ کی مکمل اور شفاف تحقیقات اسی طریقہ کار کے مطابق کی جائے جو ملک کے دیگر سیاست دانوں سے متعلق اپنایا گیا ہے ۔تحقیقات جب تک مکمل نہیں ہوجاتی انہیں عہدہ سے برطرف کیا جائے۔  اجلاس مطالبہ  کرتا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو ”مسنگ پرسن” بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور پہلے سے ”مسنگ پرسنز” کو قانون کے مطابق عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے۔اجلاس  نے پنجاب میں آئینی وقانونی مدت کی تکمیل سے قبل ہی بلدیاتی ادارے ختم کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں فی الفور بحال کیا جائے اجلاس ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات مسترد کرتا ہے۔اجلاس حکومت کی اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی مذمت کرتا ہے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی جامعات کی مالی مدد کی جائے اور فیسوں میں اضافہ واپس لیا جائے۔اجلاس آغاز حقوق بلوچستان کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان میں سول حکمرانی کا احترام،ایف سی کی جگہ سول اتھارٹی کو بحال کیا جائے ہر ضلع میں ایف سی کی قائم کردہ رکاوٹیں ختم کی جائیں۔اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ٹروتھ کمیشن بنایا جائے جو 1947ء سے اب تک کی پاکستان کی حقیقی تاریخ کو دستاویزی شکل دے۔اجلاس نے فیصلہ کیا کہ میثاق جمہوریت پر نظر ثانی کی جائے گی جس کے لیے کمیٹی بنائی جائے گی جسے یہ ذمہ داری سونپی جائے گی  کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا احاطہ  کرتے ہوئے ایسی ٹھوس حکمت عملی مرتب کرے جس میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات اور 1973ء کے د ستور کی روشنی میں پاکستان کی جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر واضح سمیت متعین ہو۔پلان آف یکشن میں کہا گیا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران احمد نیازی سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔وکلا، تاجر، کسان، مزدور، طالبعلم، سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام کو اس تحریک کی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے گا۔اکتوبر 2020 کے پہلے مرحلے میں سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں مشترکہ جلسے منعقد اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔دسمبر 2020 سے دوسرے مرحلے میں بڑے احتجاجی عوامی مظاہرے ہوں گے اور عوام کے ساتھ مل کر بھرپور ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ ہو گا۔سلیکٹڈ حکومت کی تبدیلی کے لیے تحدہ حزب اختلاف پارلیمان کے اندر اور باہر تمام جمہوری، سیاسی اور آئینی آپشنز استعمال کرے گی جن میں عدم اعتماد کی تحاریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن بھی شامل ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ جو جماعتیں قرارداد اور پلان آف ایکشن پر عملدرامد نہیں کرے گی  ان سے حساب لیا جائیگا۔ شہبازشریف نے کہاکہ سب ساتھ ہیں  بلکہ مولانا کو کہا ہے کہ اب کی بار اکیلے  ناں جانا ہمیں چھوڑ کر۔یلئے آن لائن سروس کا آغاز کردیا گیا