Site icon Teleco Alert

لاہور ہائی کورٹ کا نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

لاہور ہائی کورٹ کا نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم،علاج کیلئے غیر مشروط طور پر چار ہفتے بیرون ملک جانے کی اجازت
اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہوسکتی ہے اور حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرسکے گا۔عدالت کافیصلہ
قوم کی دعائیں رنگ لائیں اور فیصلہ نواز شریف کے حق میں آیا، عدالت عالیہ نے انسانی بنیادوں پر یہ فیصلہ کیا ہے،شہباز شریف
نواز شریف  علاج میں حکومت کی پیدا کردہ آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی
یہ سب والدہ اور کارکنوں کی دعاوں کی بدولت ممکن ہوا ہے،صدر ن لیگ کی گفتگو

لاہور (صباح نیوز)لاہور ہائی کورٹ نے نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا  جب کہ عدالت نے  نواز شریف کوعلاج کے لیے غیر مشروط طور پر 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی  اور ساتھ یہ بھی کہا گیا اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہوسکتی ہے اور حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف کے ڈاکٹروں اور دیگر ایٹنڈنٹ سے رابطے میں رہے گا اور علاج کی پیش رفت سے آگاہ رکھا جائے گا۔ جسٹس علی باقرنجفی اورجسٹس سرداراحمد نعیم پر مشتمل لاہورہائی کورٹ کا 2 رکنی بنچ سابق وزیر اعظم نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران صدرمسلم لیگ (ن)شہباز شریف کے علاوہ پارٹی کے کئی رہنما بھی موجود تھے۔سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جا سکتی ہیں؟ کیا لگائی گئی شرائط علیحدہ کی جا سکتی ہیں؟ کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟  ضمانت کے بعد شرائط لاگو ہوں تو کیا عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی ؟ کیا درخواست گزار ادائیگی کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنے کو تیار ہے ؟ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں ؟ کیا فریقین نواز شریف کی واپسی سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کر سکتے ہیں؟  کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کر سکتے ہیں؟سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف علاج کیلئے باہرجانا چاہتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں لیکن نواز شریف کو باہر جانے سے پہلے عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، ان کے پاس یہ آپشن ہے کہ اینڈیمنٹی یا شورٹی بانڈ کی رقم عدالت کے اکاونٹ پاس جمع کرادیں اگر یہ تمام چیزیں پوری کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اس موقع پر انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے انڈیمنٹی بانڈ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروانے کی پیشکش کردی۔عدالت نے شہبازشریف سے استفسارکیا کہ کیا نوازشریف واپس آئیں گے، جس پرشہبازشریف نے کہا کہ  انشااللہ واپس لائیں، عدالت نے مزید استفسار کیا کہ آپ کا انہیں ملک واپس لانے میں کیا کردار ہوگا، جس پرانہوں نے کہا کہ میں ان کے ساتھ بیرون ملک جارہا ہوں وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔لاہورہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ قانون اپنی روح کے مطابق کام کرتا ہے، جو حلف یہ دینا چاہتے ہیں ان سے لکھ کرپوچھ لیتے ہیں، ہم درخواست گزارسے لکھ کرحلف لے لیتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے عدالت نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈرٹیکنگ عدالت کو جمع کرائی جائے گی۔ عدالت نے وفاق سے استفسار کیا کہ اگرآپ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو پھرشرائط لگانے کی کیا ضرورت ہے، عدالت چاہ رہی ہے کہ یہ معاملہ حل ہو۔عدالت نے کہا کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے لکھ کر انڈرٹیکنگ لے لیتے ہیں وفاق اس انڈر ٹیکنگ کو دیکھ لے، یہ انڈر ٹیکنگ عدالت میں دی جائے گی اگرانڈرٹیکنگ پر پورا نہیں اترا جاتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جو شرائط بھی عائد کی گئی ہیں وہ عدالت کے ذریعے ہونا چاہیے تھیں،اگر عدالت کو مطمئن کرنے کی بات ہے تو جو عدالت حکم دے گی ہمیں قبول ہوگا۔وکیل نواز شریف نے کہا کہ جب عدالت میں کیس زیرسماعت ہو تو ریاست کا اختیار نہیں کہ سزا ختم کرے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 6 ہفتے کی سزا معطل کی لیکن بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی، عدالتی اورسیاسی تاریخ میں ایسی مثال نہیں کہ سزا یافتہ شخص واپس آئے اور سزا کاٹ رہا ہو۔نوازشریف کے ایک اور وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ آرٹیکل 4 کے مطابق کسی شہری پر شرط عائد نہیں کی جا سکتی جس پر جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ قانون تو سزا یافتہ کو باہر بھیجنے کا اختیار حکومت کو بھی نہیں دیتا، ہم چاہتے ہیں یہ معاملہ اتفاق رائے سے طے ہو، لکھ کر دیں کہ نوازشریف اور شہبازشریف وطن واپس آئیں گے۔درخواست کی سماعت کے دوران شہباز شریف نے ٹیلی فون پر نواز شریف، مریم نواز اور اپنی والدہ سے مشاورت کی۔  میڈیا رپورٹ کے مطابق اس دوران نواز شریف نے کہا کہ ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کے لئے حکومتی شرط غیر قانونی ہے، عدالت کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر ہوگا، عدالتی احکامات پر من و عن عمل کیا جائے گا۔عدالتی ہدایت کی روشنی میں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا مسودہ لاہور ہائی کورٹ کے معاون کے حوالے کر دیا۔ بیان حلفی کا ڈرافٹ 2 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے اور عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔ دوسری جانب ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے شہبازشریف کا بیان حلفی مسترد کردیا، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے، اس بیان حلفی میں کسی قسم کی ضمانت نہیں دی گئی، ایسی صورت میں ہم اس کو کیسے تسلیم کرسکتے ہیں۔ 25نومبرکو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کیس کی اپیل بھی مقرر ہے،  اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہو گا اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ مانگے ہیں۔اشتیاق احمد خان نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافٹ کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے، بورڈ یہ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفر کر کے ملک میں واپس آ سکتے ہیں یا نہیں،  عدالت کی جانب سے ضمانت مقررمدت کے لیے دی گئی ہے۔دونوں جانب سے ڈرافٹ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے کہا کہ عدالت اپنا ڈرافٹ تیارکرکے فریقین کے وکلا کو دے گی، عدالتی ڈرافٹ پر فریقین متفق ہوئے تو فیصلہ کیا جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں تیسری مرتبہ وقفہ کر دیا۔عدالت کی جانب سے تیار کردہ مجوزہ ڈرافٹ وفاقی حکومت اور شہباز شریف کے وکلا کو فراہم کیے گئے۔ شہباز شریف اور احسن اقبال نے بھی ڈرافٹ کا جائزہ لیا۔عدالتی ڈرافٹ کے متن میں کہا گیا کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے لیکن اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے جب کہ حکومتی نمائندہ سفارت خانے کے ذریعے نوازشریف سے رابطہ کرسکے گا۔بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے وکلا نے عدالتی ڈارفٹ منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالتی ڈرافٹ منظورہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ پرمکمل عملدرآمد کریں گے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالتی ڈرافٹ پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ میں معمولی ترامیم کے لیے تجاویز ججزکو چیمبرمیں بھجوادی ہیں۔بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل)سے نکالنے اور غیر مشروط طور پر باہر جانے کے لیے دی گئی درخواست پر ان کے حق میں فیصلہ سنادیا۔عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے لگائے گئے 7 ارب روپے کے بانڈز کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب ہائی کورٹ نے ضمانت دی ہے تو اس شرط کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی تھی تاہم اس کے لیے ان کی جانب سے 80 لاکھ پانڈ، 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر، 1.5 ارب روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی۔ گزشتہ روز نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی جانب سے دائر درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا،عدالتی فیصلہ کے بعد ہائیکورٹ کے باہر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا کہنا  تھا کہ  عدالت عالیہ نے اربوں روپے کے اینڈمنٹی بانڈ کی حکومتی شرط کو نامنظور کرتے ہوئے نواز شریف کو فی الفور بیرون ملک جانے کی اجازت دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘عوام کی دعائیں رنگ لے آئیں ہیں اور لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو انسانی حقوق کی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ سنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘پوری قوم کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں جنہوں نے نواز شریف کے لیے دعائیں کی تھیں’۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف کا علاج اور بیماری کی تشخیص، جو فوری ہونا چاہیے تھی، اس میں حکومت کی پیدا کردہ آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی ہے’۔انہوں نے دعا کی کہ ‘اللہ تعالی نواز شریف کے سفر کو مبارک کرے اور میاں نواز شریف صحت یاب ہوکر وطن واپس آئیں’۔
#/S

Exit mobile version