شہریوں کے تحفظ رولز کابینہ سے منظوری سے پہلےسینیٹ کمیٹی کونہ دینے پر اظہاربرہمی

سینیٹ قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شہریوں کے تحفظ رولز کابینہ سے منظوری سے پہلے کمیٹی کونہ دینے پر برہمی کااظہار
پارلیمنٹ کی کمیٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے کیبنٹ کو رولز بھیج دیئے گئے،پارلیمنٹ کوکوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے  چیرپرسن
ان رولز کا بنیاد ی مقصد شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، سوشل میدیا انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے فیصل جاوید
پارلیمان کوبائی پاس کرنے کاسوچ نہیں سکتے ،پارلیمنٹ جب ایکٹ بناتی ہے تو محکمے کو رول بنانے کا اختیار بھی دیتی ہے سیکرٹری
پاکستان کے آئی ٹی برآمدات میں 23فیصد اضافہ ہواہے حکام

آسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے باربارکہنے کے باوجودکابینہ سے منظوری سے پہلے کمیٹی کونہ دینے پر برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے کیبنٹ کو رولز بھیج دیئے گئے،پارلیمنٹ کوکوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے ۔حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ پارلیمان کوبائی پاس کرنے کاسوچ نہیں سکتے ،پارلیمنٹ جب ایکٹ بناتی ہے تو محکمے کو رول بنانے کا اختیار بھی دیتی ہے،پاکستان کے آئی ٹی برآمدات میں 23فیصد اضافہ ہواہے ۔منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ اجلاس میں سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی سے شہریوں کے تحفظ (ان لائن ہارم کے خلاف)رولز 2020کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔   چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے کہاکہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بارہا کہا تھا کہ رولز بناتے وقت اراکین کمیٹی کو اعتماد میں لیا جائے  اراکین کمیٹی بھی شہریوں کے تحفظ کے رولز میں اپنی تجاویز دینا چاہتے تھے مگر پارلیمنٹ کی کمیٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے کیبنٹ کو رولز بھیج دیئے گئے۔جس پر سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کمیٹی کو بتایا کہ اسکا تحریری جواب بھیج دیا جائے گا۔ پارلیمنٹ جب ایکٹ بناتی ہے تو محکمے کو رول بنانے کا اختیار بھی دیتی ہے۔ رولز ایکٹ کے منافی نہیں بنائے جا سکتے عام طور پر رولز کمیٹیوں میں نہیں آتے۔سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ میں ہوتی ہے مگر رولز کیلئے پابندی نہیں ہے کہ کمیٹیوں میں لائے جائیں البتہ کمیٹیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ رولز کا جائزہ لے سکتی ہیں کہ کہیں رولز قوانین کے منافی تو نہیں ہیں۔ جس پر چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے کہاکہ 15جنوری کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں واضح ہدایت دی تھی کہ رولز کو کمیٹی کے ساتھ شیئر کیا جائے اور کیبنٹ کو ڈائریکٹ بھیجنے کا کمیٹی نے بھی نوٹس لیا تھا اور وزارت سے رپورٹ بھی طلب کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی 2016میں کی گئی مگر چار سال تک رولز ہی نہ بن سکے اور اس کمیٹی نے بھی متعدد بار رولز بنانے کی سفارشات دیں مگر جب رولز بنائے تو کمیٹی سے مشاورت کے بغیر ہی بنا دیئے گے۔  سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ان رولز کا بنیاد ی مقصد شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، سوشل میدیا انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے مگر اس کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ہمیں مل کر اقدام اٹھانا ہونگے اور عوا م کو شعور پہنچانا ہو گا کہ سوشل میڈیا کو مثبت انداز میں استعمال کریں۔ وزیراعظم پاکستان نے واضح ہدایت دی ہے کہ تمام  اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر تفصیلی مشاور ت سے رولز بنائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے موثر استعمال سے ہم اپنی نئی نسل کو مستفید کر سکتے ہیں مگر ہمارے کلچر کو انٹرنیٹ نے تباہ کر دیا ہے ہماری روایات، تہذیب اور کلچر کو تباہ کیا گیا ہے۔ ان چیزوں کو بہتر کرنے کیلئے ہمیں اپنے بچوں کو تربیت کرنی چاہئے اور عام معاشرے کو بھی شعور دینا چاہئے۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی پیمرا کے ذریعے بھی آ گاہی مہم چلا سکتی ہے تا کہ لوگ افواہوں پر یقین نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا خبر پیدا نہیں کرتا پھیلاتا ہے لوگوں نے غلط اور جعلی خبروں کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں رولز کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کیلئے تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور اراکین کمیٹی اپنی رائے بھی فراہم کریں۔ سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی ایک جعلی آئی ڈی بنائی گئی ہے اسکی انکوائری کرنی چاہئے۔ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ کچھ ٹاور کمپنیاں قواعد و ضوابط کو فالو نہیں کر رہی ہیں ملٹی نیشنل کمپنیایوں میں انجیئیرنگ کی پوسٹ پر فرنٹ مین تعینات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیل فون تیار کرنے والی کمپنیوں کی بھی تفصیلات حاصل کی جائیں ایک رپورٹ کے مطابق غیر معیار  فون کے ذریعے کینسر پھیل رہا ہے۔ چیئر پرسن کمیٹی نے سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ہدایت کی کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس منعقدہ4مارچ2020میں وزارت کی جانب سے آئی ٹی ایکسپورٹس کو بڑھانے کیلئے اٹھائے گئے اور اٹھائے جانے والے قدامات بارے تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز تاج محمد آفریدی، فدا محمد، فیصل جاوید، ثنا  جمالی، ڈاکٹر شہزاد وسیم اور نصیب اللہ بازئی کے علاوہ سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی  اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔