ارشد ملک نے پریس ریلیز اور بیان حلفی جاری کر کے یہ ثابت کیا کہ ان کا ماضی مشکوک تھا سپریم کورٹ 


جج   ارشد ملک   ویڈیو   اسکینڈل’ نواز شریف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ ہی جائزہ لے سکتی ہے،سپریم کورٹ  کا تحریری فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کی سزا ختم  اور اسے برقرار جبکہ سماعت کے بعد احتساب عدالت کے فیصلہ میں ترمیم بھی کر سکتی ہے
اسلام آباد کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ کوبھجوا سکتی ، دیکھنا ہو گا کہ ویڈیو  کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر ہو گا
عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ متاثرہ فریق اگر ویڈیو سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو انہیں درخواست دینی ہو گی
معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ،ہمارا مداخلت کرنا مناسب نہیں، ویڈیو کے معاملہ پر کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کر دی
ایف آئی اے پہلے ہی معاملہ کی تحقیقات کر رہی ہے، ویڈیو کے اثرات پر کوئی رائے دینا مناسب نہیں
جج ارشد ملک  کا طرز عمل پورے ادارے کیلئے  بدنما داغ،بیان شرمناک طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ ان کا ماضی مشکوک رہا ہے
ویڈیو سے متعلق ارشد ملک کے بیانات ان کے خلاف کاروائی کے لیئے کافی ہیں۔ جج کا بیان حلفی اور پریس ایک تلخ حقیقت ہے
ویڈیو مستند اور مضمرات کے حوالہ سے ابھی فیصلہ جاری کرنا بہتر نہیں،جج ارشد ملک کا بیان حلفی خود ہی ان کے خلاف چارچ شیٹ ہے
ارشد ملک نے پریس ریلیز اور بیان حلفی جاری کر کے یہ ثابت کیا کہ ان کا ماضی مشکوک تھا
اگر ارشد ملک کو دھمکیاں مل رہی تھیں تو انہوں نے اس سے اعلیٰ عدلیہ کو آگاہ کیوں نہیں کیا،عدالت
جب ارشد ملک کو دھمکیاں اور رشوت کی پیشکش کی جارہی تھی تو انہوں نے کیس کو سننے سے معذرت کیوں نہیں کی، 25صفحات پر مشتمل  فیصلہ

اسلام   آباد (صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد کی  احتساب عدالت نمبر دو کے سابق  جج محمد ارشد ملک کی  مبینہ ویڈیو کی  تحقیقات کے حوالہ سے دائر تین درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ فیصلہ 25صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ ہی جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کی سزا ختم بھی کر سکتی ہے اور اسے برقرار بھی رکھ سکتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ سماعت کے بعد احتساب عدالت کے فیصلہ میں ترمیم بھی کر سکتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اسلام آباد کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ کوبھجوا سکتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہو گا کہ ویڈیو  کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر ہو گا۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ متاثرہ فریق اگر ویڈیو سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو انہیں درخواست دینی ہو گی۔ جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمرعطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ چیف جسٹس آصف سعید خا ن کھوسہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا جبکہ تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا۔  درخواستیں اشتیاق احمد مرزا، سہیل اختراور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔  عدالت نے کیس کے حوالہ سے تمام درخواستوں کو نمٹا دیا ہے۔ عدالت نے  فیصلہ میں قرار دیا ہے  معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے اس مرحلہ پر ہمارا مداخلت کرنا مناسب نہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ویڈیو کے معاملہ پر کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایف آئی اے پہلے ہی معاملہ کی تحقیقات کر رہی ہے ۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ ویڈیو کے اثرات پر کوئی رائے دینا مناسب نہیں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جج ارشد ملک  کا طرز عمل پورے ادارے کے لئے  بدنما داغ کی طرح ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جج کا بیان شرمناک طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ ان کا ماضی مشکوک رہا ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ویڈیو سے متعلق ارشد ملک کے بیانات ان کے خلاف کاروائی کے لیئے کافی ہیں، جج کا بیان حلفی اور پریس ایک تلخ حقیقت ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ویڈیو مستند اور مضمرات کے حوالہ سے ابھی فیصلہ جاری کرنا بہتر نہیں۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ جج ارشد ملک کا بیان حلفی خود ہی ان کے خلاف چارچ شیٹ ہے اور ارشد ملک نے پریس ریلیز اور بیان حلفی جاری کر کے یہ ثابت کیا کہ ان کا ماضی مشکوک تھا ۔عدالت نے قرار دیا کہ اگر ارشد ملک کو دھمکیاں مل رہی تھیں تو انہوں نے اس سے اعلیٰ عدلیہ کو آگاہ کیوں نہیں کیا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جب ارشد ملک کو دھمکیاں دی جارہی تھیں اور رشوت کی پیشکش کی جارہی تھی تو انہوں نے کیس کو سننے سے معذرت کیوں نہیں کی۔عدالت نے قرار دیا ہے نواز شریف کی العزیزیہ اسٹیل ملز فیصلہ کے خلاف فوجداری اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے  اس لئے ہائی کورٹ کا ہی اختیار ہے کہ وہ اس ویڈیو کا جائزہ لے اور اس کے بعد ہائی کورٹ کے پاس تین آپشنز ہوں گی۔ پہلا آپشن یہ ہو گا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ارشد ملک کی جانب سے دی گئی سزا کو کالعدم قرار دے دے، دوسرا آپشن یہ ہو گا کہ وہ سزاکو برقرار رکھے اور تیسرا آپشن یہ ہو گا کہ وہ سزا میں ترمیم  کر دے یا ماتحت عدلیہ کو دوبارہ فیصلہ کے لئے بھجوا دے ۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ یہ سمجھتی ہے اس مرحلہ پر اس معاملہ میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ ویڈیو اسکینڈل کے حوالہ سے سپریم کورٹ متعلقہ فورم نہیں ہے۔ ویڈیوز کے حوالہ سے پہلے ہی ایف آئی اے کی جانب سے فوجداری تحقیقات چل رہی ہیں اور اٹارنی جنرل آف پاکستان ان تمام تر تفصیلات سے آگاہ ہیں اور  پورے طریقہ سے معاملات ان کے علم میں بھی ہیں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرے گی اور متعلقہ فریق کیس میں کسی بھی قسم کے  ریلیف کے لئے متعلقہ فورم سے رجوع کر یں۔سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کی جانب سے معاملہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ معاملہ پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر  التواء ہے اور کمیشن کی رائے اپیل کے اندر قابل قبول نہیں ہو گی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس معاملہ پر کوئی کمیشن بنایا جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ معاملہ کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن  کے  قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں ۔جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں ۔ ارشد ملک ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر دو میں تعینات ہوئے۔ فیصلہ میں یہ بھی لکھا گیا کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ان کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے ۔  عدالت نے فیصلہ میں کہا ہے کہ امید ہے جج ارشد ملک کے خلاف انضباطی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔